• Sun. Jun 29th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

”آپ ہوسیں“ تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

Aug 31, 2021

کافی عرصہ پہلے جھنگ میں ہمارے آبائی گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر مقامی دیہاتوں کو آنے جانے والی بسوں کا اڈہ تھا۔دیہی علاقوں کو جانے والی سڑکوں کی حالت عمومی طور پر ناگفتہ بہ تھی مگر اڈے کو آنے والی ایک قریبی سڑک تو بالکل ہی ”نام نہاد“ تھی۔ کسی دوسرے شہر سے آئے ہوئے شخص نے ایک دن ایک مقامی آدمی سے پوچھا یہ سڑک کہاں جاتی ہے؟ انتہائی دکھ بھرے اور غم وغصے کی ملی جلی کیفیت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں جواب ملا ”اس بیچاری نے کہاں جانا ہے؟“آپ کو کیسے لگتا ہے کہ یہ بیچاری کہیں آنے جانے کے قابل ہے یہ تویہیں پڑی بس زندگی کے دن پورے کررہی ہے بلکہ اس پر آنے جانے والے بھی اپنی منزل کی بجائے حقیقی منزل کو پہنچ جاتے ہیں ٭۔اس سڑ ک پر اتنے خلا تھے کہ ذرا سی تیز رفتاری سے سفر کرنے والا خلاؤں کے پار پہنچ سکتا تھا۔ میرے خیال اسے سڑک صرف اس لیے کہہ دیا جاتا تھا جیسے ہمارے ہاں کئی لوگوں کو”حاجی“ صرف اس وجہ سے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ حج کے دن کو پیدا ہو جاتے ہیں۔زندگی بھر وہ اپنے گاؤں یا محلے سے باہر نہیں نکلتے مگر کہلاتے ”حاجی“ہیں۔ اڈے سے چلنے والی زیادہ تر بسوں کا حال بھی ایسا تھا کہ جب بس چل رہی ہوتی تھی تو اس پر کسی کا بس نہیں چل رہا ہوتا تھا، ڈرائیور کا بھی نہیں۔بس کی ہارن کے علاوہ ہر چیز بجتی تھی۔ بس چلتے ہوئے جھومتی بھی تھی اورہرگھڑی اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی جھومنے کا موقع فراہم کرتی تھی۔ وہ سیٹوں پر بیٹھے بیٹھے جھوم رہے ہوتے تھے اوراکثر اوقات جھٹکا لگنے کی صورت میں بس کا فرش چوم رہے ہوتے تھے۔ جب بھی کوئی بس آتی، بہت دھول اُڑتی۔اردگرد کھڑے لوگ غبار آلود ہو جاتے۔ زیادہ تر لوگ مقامی ہوتے تھے اوران سارے مراحل سے آشنا تھے۔ایک دن کسی دوردرازکے ایک ”باؤ“ ٹائپ جوان کو بھی کسی وجہ سے وہاں کھڑا ہونا پڑ گیا۔دور سے آنے والی ایک بس کی وجہ سے اُڑنے والی دھول ”باؤجی“ پر پڑی تو صاحب نے بس کو بے اختیار گالیاں دینا شروع کردیں۔ جب بس اُن کے قریب آکر اڈے پر کھڑی ہوئی اور”باؤجی“ کی نظر پڑی تو بس کے پیچھے صرف اتنا لکھا تھا ”آپ ہوسیں“۔
ایف ایس سی کے دنوں میں کچھ دوستوں کوایک ایسے پروفیسرصاحب سے پڑھنے کااتفاق ہوا جوبراہ راست اعلیٰ درجے میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔پروفیسر صاحب اپنے جونیئررفقاء کارکوبہت نالائق سمجھتے تھے اور اس کا برملااظہار بھی کرتے رہتے تھے۔ایک دن جب وہ ٹیوشن پڑھارہے تھے اُن کے لاڈلے بچے نے کوئی شررات کی تو پروفیسر صاحب نے اُسے بھی پاگل کہہ دیا۔بچہ ہنسنے لگ گیا اورکہنے لگا ”ہے خود اور کہتا مجھے ہے۔دوسروں کو وہی کہتا ہے جوخود ہوتا ہے۔“
بچے کی بات دانائی سے بھرپورہے۔لوگوں کے بارے میں اچھاگمان رکھنا اوراچھی بات کرنا تمام الہامی مذاہب کامزاج ہے۔ حضرت عیسی کے زمانے میں جب لوگ کسی کو سزادینے کیلئے ہاتھوں میں پتھرپکڑے کھڑے تھے تو آپ نے فرمایاکہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے زندگی میں خودکبھی گناہ نہ کیا ہوا۔کتابوں میں مرقوم ہے کہ مجمع خاموشی سے چلا گیا۔اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر کے ارشادت عالیہ کامفہوم بھی یہی ہے کہ اگر کسی ایسے شخص پر لعنت ڈالی جائے جو لعنت کامستحق نہ ہوتو لعنت ڈالنے والے پر لُٹادی جاتی ہے ایسے ہی اگر کسی ایسے شخص کو کافر کہاجائے جو کافر نہ ہو تو کفر کہنے والے پرلوٹ آتا ہے۔
ایک بزرگ نے اپنے مرید کو انتہائی خوبصورت نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ انسان کی فطرت مکھی کی فطرت جیسی نہیں ہونی چاہیئے۔مکھی ہمیشہ ”گند“ پر بیٹھتی ہے جبکہ انسان کو ہمیشہ دوسرے کی خوبصورتی اوربھلائی پر نظر رکھنی چاہیئے۔ہم میں سے اکثر لوگ دوسروں کی اچھائیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اُن کی کمزوریوں اوربُرائیوں پر نظر رکھتے ہیں اوراُن کو برملااچھالتے ہیں۔ایسے لوگوں کو اگر کہاجائے کہ ”آپ ہوسیں“تو بے جا نہ ہوگا۔
ایک ڈاکٹر نے اپنے مریض سے کہا کہ اگرچہ آپ کی ٹانگ پر ابھی تک سوجن ہے مگر میرے لیے یہ فکر کی بات نہیں ہے۔ مریض نے برملاجواب دیا ڈاکٹر صاحب اگرآپ کی ٹانگ پر کبھی سوجن ہوئی تویہ میرے لیئے بھی کبھی فکر کی بات نہ ہوگی فکر تو اُس کو ہوتی ہے جس کی ٹانگ پر سوجن ہو۔
انسان کو خواب غفلت سے جگانے کیلئے کسی نہ کسی کا اُس کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ ”آپ ہوسیں“۔ ایک شاعر کوبجاطور پر یہ دکھ تھا کہ وہ مزاجاً فقیر ہے جبکہ لوگ پل بھر میں شہنشاہ بن جاتے ہیں۔ قرآن پاک انسان کے بارے میں کہتا ہے کہ خالق کائنات کی ذات اس کو پانی کے ایک قطرے سے پیدا کرتی ہے اورجب وہ بڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں مثالیں دینا شروع کردیتا ہے اور جھگڑا کرنا شروع کردیتا ہے انسان اپنے جیسے انسانوں کے بارے میں بھی نہیں سوچتا اوراپنے بنانے والے کے بارے میں نہیں سوچتا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں عقل،فہم اور حکمت عطاء فرمائے۔ہمیں دوسروں کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہوئے ہمیشہ یہ یاد رہے کہ اگر جواباً اُس نے کہہ دیا ”آپ ہوسیں“تو ہمارے دامن میں کیابچے گا؟۔

(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کر ے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر، چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں)