• Fri. Jul 4th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

تجارتی و سرمایہ کاری تعلقات کو مضبوط اور بہتربنانے کے خواہش مند ہیں۔ جاپانی قونصل جنرل

Nov 7, 2019

کراچی(غلام مصطفے عزیز ) جاپان کے قونصل جنرل توشی کازو ایسو مورا نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان مل کر تقریباً250ملین آبادی کے ساتھ ایک بڑی مارکیٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے جاپانی تاجربرادری کو تجارت وسرمایہ کاری کے وسیع مواقعوں کی پیش کش کرتے ہیں جو اس خطے میں اپنے کاروباری کو توسیع دینے کے خواہش مندہیں۔اس وقت مجموعی طور پر 80جاپانی کمپنیاں کامیابی کے ساتھ پاکستان میں کام کررہی ہیں لیکن یہ کچھ بھی نہیں اگر ہم اس کا موازنہ تھائی لینڈ اور چین سے کریں جہاں بالترتیب4500 اور17000 کے لگ بھگ جاپانی کمپنیاں کام کررہی ہیں۔ یہ بات انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے دورے کے موقع پر کہی۔اجلاس میں کے سی سی آئی کے صدر آغا شہاب احمد خان،سینئر نائب صدر ارشد اسلام، نائب صدر شاہد اسماعیل اور منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی شریک تھے۔ جاپانی قونصل جنرل نے بتایا کہ اگرچہ کئی جاپانی کمپنیوں کے بھارت میں پیداواری یونٹس موجود ہیںجو ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے لیکن یہ کمپنیاں پاکستان اور بھارت کے مابین خراب تعلقات اور تناؤکی وجہ سے پاکستان کو اپنی اشیاء اور خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہیں جو ایک مسئلہ ہے۔انہوں نے پاکستان میں کام کرنے والی کچھ اہم جاپانی کمپنیوں باالخصوص سوزوکی،ہنڈا، ٹویوٹا اور ہینو کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا جو آٹو موبائل کے شعبے میں کامیابی کے ساتھ اپنا کاروبار چلا رہی ہیں جبکہ نسان بھی جلد پاکستان سے اپنے کام کا آغاز کرنے والی ہے۔حال ہی میں جاپانی کمپنی مورنگا نے بھی شیخوپورہ میں اسٹیٹ آف دی آرٹ فیکٹری کا افتتاح کیا ہے جو مکمل طور پر کام کررہی ہے جبکہ ڈی آئی ڈی گروپ جاپان اٹلس ہنڈا کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے پاکستان میں موٹرسائیکل کی چین کی پیداوار کے لیے فیکٹری قائم کررہاہے جبکہ مزید تین جاپانی کمپنیاں اپنے کاروباری یونٹس شروع کرنے پاکستان آرہی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجارتی و سرمایہ کاری تعلقات کو مضبوط اور بہتر بنایا جائے اوراس سلسلے میں وہ پوری کوشش کررہے ہیں۔جاپان 1952سے پاکستان کے ساتھ شاندار تعلقات سے لطف اندوز ہورہاہے اور جاپان اس خطے میں اس سے پہلے سے کام کررہاتھا جب سندھ اور پنجاب خطے سے جاپان میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداوار کے لیے خام مال درآمد کیا جاتا تھا۔ قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر آغا شہاب احمد خان نے جاپانی قونصل جنرل کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ کراچی چیمبر معیشت کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے تاجروصنعتکاروں کا میزبان اور مؤثر پلیٹ فارم ہے جس کو لازمی طور پر تجارتی تعلقات کو مزید بہتر اوردونوں ممالک کے درمیان کاروباری روابط بڑھانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔انہوںنے کہاکہ جاپان کا انداز انتہائی منفرد ہے کیونکہ جاپانی مینجمنٹ اسٹائل بہت سارے مغربی ممالک کے برعکس ہے جہاں کمپنی میںمعلومات کا بہائو نیچے سے اوپر کیا جانب ہونے پر زور دیا جاتاہے جسے پاکستان میںبھی متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں جاپان کی جانب سے دنیا بھر میں اپنی مصنوعات متعارف کروانے کے طریقہ کار کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی کم ہوتی برآمدات کو بڑھانے کے لیے اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ کس طرح ہم جاپانی مہارت سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ پاکستان اور جاپان 1952سے شاندار دوطرفہ تعلقات سے لطف اندوز ہورہے ہیں جس کی عکاسی اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ اس وقت بڑی تعداد میں جاپانی کمپنیاں پاکستان میں کام کررہی ہیں۔انہوں نے جاپان ایکسٹرنل ٹریڈ آرگنائزیشن ( جیٹرو) سے کرائے گئے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ سروے کے مطابق منافع کے لحاظ سے جاپانی کمپنیوں کے لیے پاکستان دوسرا اہم منافع بخش مقام ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2018 میں پاکستان سے جاپان کے لیے اشیاء کی برآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی جو 17.9فیصد کمی سے 354.26ملین ڈالر پر آگئیں جبکہ 2017میں برآمدات 431.96ملین ڈالر تھیں۔اسی طرح پاکستان کے لیے جاپان سے سامان کی درآمدات9.6فیصد کمی سے 2.1ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں جو 2017میں 2.3ارب ڈالر تھیں۔انہوں نے کہاکہ جاپان اپنی ضروریات بڑی مقدار میں اناج، ٹیکسٹائل اور سرجیکل آلات درآمد کرکے پوری کرتا ہے۔پاکستان یہ مصنوعات جاپان کو برآمد کرکے اپنا حصے کو مضبوط کرسکتا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارتی حجم میں مزید اضافہ ہوگا۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے آٹو موبائل کے شعبے میں تربیت کے لیے جاپان کے ساتھ مشترکہ شراکت داری کرے۔ انہوں نے کہاکہ دونوں ملکوںکو متنوع تجارت پر توجہ دینی چاہیے خاص طور پر ہماری زرعی برآمدات باالخصوص جاپان کو آم کی برآمدات کو فروغ دینے کے امکانات کا جائزہ لینا چاہیے جبکہ آٹومیشن، انجینئرنگ اور الیکٹرونکس میں جاپانی مہارت سے مستفید ہونے کی حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔انہوںنے زور دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان اور جاپان کے درمیان تجارتی تعلقات کو اس حد تک مضبوط بنانا ہوگا کہ پاکستانی معیشت بھی جاپان کی علم پر مبنی معیشت کی عکاسی کرنے لگے جو یقینی طور پر اقتصادی ترقی اور خوشحالی لائے گی۔