• Sat. Jun 28th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

کرکٹ ٹیم کے کون سے کھلاڑی دانش کنیریا کے ساتھ بیٹھ کے کھانا بھی نہیں کھاتے؟ شعیب اختر کے انکشاف نے ہنگامہ برپا کردیا

Dec 29, 2019

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) مایہ ناز پاکستانی کرکٹر دانش کنیریا کو کرکٹ سے ریٹائر ہوئے کئی سال گزر گئے اور اب جا کر راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر نے ان کے متعلق ایک نیا قضیہ کھڑا کر دیا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق شعیب اختر نے کہا ہے کہ ”جب دانش کنیریا پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے تو انہیں مذہبی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ٹیم کے باقی کھلاڑی اس لیے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے تھے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے تھے کیونکہ وہ ہندو تھے۔“ بھارتی اخبار کے مطابق شعیب اختر کے اس بیان کے بعد دانش کنیریا بھی سامنے آگئے اور ان کے بیان کی تصدیق کر دی۔رپورٹ کے مطابق دانش کنیریا دوسرے ہندو کرکٹر تھے جو قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہے۔ ان سے پہلے انیل دالپت قومی ٹیم کا حصہ رہے۔ وہ بھی دانش کنیریا کے ننھیالی رشتہ دار تھے۔ شعیب اختر نے یہ بیان پی ٹی وی سپورٹس کے پروگرام ’گیم آن ہے‘ میں دیا۔

انہوں نے کہا کہ ”ٹیم میں میرا دو تین لوگوں کے ساتھ بہت جھگڑا ہوا۔ جھگڑے کی وجہ یہ تھی کہ وہ لسانیت اور علاقائیت پر بات کرتے تھے۔ جب وہ کراچی، لاہور اور پشاور کی بات کرتے تھے تو مجھے بہت گرمی آتی تھی۔ اگر کوئی ہندو ہے تو کیا ہوا، وہ ٹیم کے لیے اچھا کھیل رہا ہے۔ اسی ہندو نے جب ٹیسٹ سیریز جتوائی تو میں نے ان لوگوں سے کہا کہ اب بولو۔ وہ اس بات پر بھی اعتراض کرتے تھے کہ دانش کنیریا وہاں سے کھانا کیوں لے رہا ہے۔ میں انہیں کہتا کہ میں تمہیں اٹھا کے باہر پھینک دوں گا۔ تم کپتان ہو تو اپنے گھر پہ۔ میرے ملک کو وہ چھ چھ وکٹیں لے کر دے رہا ہے۔ “

شعیب اختر کے اس بیان کی وجہ سے بھارتیوں کو بولنے کا موقع مل گیا ہے اور وہ اس بیان کو بھارت کے شہریتی ترمیمی بل کے جواز کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے شعبہ نیشنل انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کے سربراہ امیت مالویا نے شعیب اختر کے اس بیان پر کہا ہے کہ ”اگر ایک انٹرنیشنل کرکٹر کو ہندو ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ایسے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس سے پاکستان میں بسنے والے عام غیرمسلموں کی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اگر ان غیرمسلموں کو شہریتی ترمیمی بل کے ذریعے بھارت میں پناہ دی جاتی ہے تو بھارتی مسلمانوں، کانگریس اور دوسرے مخالفین اس کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟“