• Tue. Jul 8th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

میر شکیل الرحمان کی گرفتاری ، صحافی برادری میدان میں آ گئی ، نیب پر برس پڑے

Mar 13, 2020

لاہور (نمائندہ خصوصی )گزشتہ روز نیب کی جانب سے جنگ گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس پر صحافتی حلقوں کی جانب سے سخت مذمت کی جارہی ہے ۔نیب کے ترجمان نے جنگ گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان پر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں 54 پلاٹ حاصل کرنے کا الزام ہے

تفصیلات کے مطابق میر شکیل الرحمان کی گرفتار ی پر صحافی روف کلاسرا نے پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ ”میر شکیل الرحمن کو انصاف کے لیے نہیں بلکہ ذاتی انتقام اور پورے میڈیا کو قید کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔حکمران اپنی مرضی کا سچ سننا چاہتے ہیں۔ایک ایک کر کے سب کو جیل میں ڈالیں گے۔یہی چینی اور سعودی ماڈل ہے جس کے ہمارے حاکم مداح ہیں۔نیب مشرف سے اب تک ہر حکمران کا بچہ جمہورا ہے۔“

حامد میر نے چینل مالک کی گرفتاری پر لکھا کہ ”میر شکیل الرحمان کو کال اپ نوٹس کے مطابق 12 مارچ کو شکایت کی تصدیق کیلئے پیش ہونے کا کہا گیا تھا لیکن جب وہ پیش ہوئے تو انہیں تحویل میں لے لیا گیا ، ، نیب قوانین کی شق نمبر 24اے یہ کہتی ہے کہ نیب چیئر مین انکوائری یا پھر تحقیقات کے دوران ہی گرفتاری کے احکامات جاری کر سکتے ہیں ۔نیب نے اپنی ہی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میر شکیل الرحمان کو گرفتار کیا ہے کیونکہ وہ شکایت کی تصدیق کے مرحلے پر کسی کو بھی گرفتار ہیں کر سکتی ۔“

سلیم صافی نے گرفتاری پر مذمت کرتے ہوئے نہایت ہی سخت الفاظوں کا استعمال کیا اور کہا کہ ” سیف الرحمان نے تو صرف پیپلز پارٹی کے ساتھ زیادتیاں کی تھیں ، اس لیے انہیں صرف زرداری کے قدموں میں گرنا پڑا لیکن لکھ کر رکھ لیجئے کہ جاوید اقبال ریٹائرڈ ہوتے ہی باقی ساری زندگی ہر روز نہیں بلکہ ہر گھنٹے کسی نہ کسی کے قدموں میں معافی مانگنے کیلئے گرے پڑے ہوں گے ۔“

عمر چیمہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ” میر شکیل الرحمان ایک بہادر شخص ہے لیکن بد قسمتی سے اس کا واسطہ بزدل اور کم ظرف لوگوں سے ہے جنہوں نے کراچی سے دبئی اور لاہور سے لندن تک چھان مارا کچھ نہ ملا تو 36 سالہ پرانا زمین خریدنے کا کیس بنا ڈالا ، گرفتار جو کرنا تھا ، اور نیب نے حسب توقع کرائے کے قاتل کا کردار ادا کیاہے ۔“

ارشد وحید چوہدری نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ” میر شکیل الرحمان پر سخت دباﺅ ڈالا جاتا رہا کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت اور نیب کے بارے میں تنقیدی خبریں دینے والے جنگ اور جیونیوز کے کچھ صحافیوں کو ملازمت سے نکال دیں ،لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا ،میڈیا انڈسٹری میں کسی اونر کی طرف سے ایسا پروفیشنل ازم خال ہی ملے گا ۔“

سینئر صحافی کامران خان نے مذمت کرتے ہوئے ٹویٹر پر پیغام جاری کیا اور کہا کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری نیب کی گرفتاریوں میں سب سے زیادہ اشتعال انگیز دکھائی دیتی ہے کیونکہ شکایت کی تصدیق کے مرحلے پر شاید وہی گرفتار ہوئے۔ کسی کو اندازہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیوں گرفتار ہوئے۔ انتہائی قابل مذمت عمل!۔“

صحافی سید طلعت حسین نے کہا کہ ”ساری دنیا کے صدر ، وزیراعظم اور ریاستی ادارے کرونا سے لڑ رہے ہیں اور ہم لڑائی جنگ گروپ سے کر کے خوش ہو رہے ہیں ، کیا سرکس ہے ۔

صحافی مرتضیٰ علی شاہ نے کہا کہ” میر شکیل الرحمان کو گرفتار کرنا وزیراعظم عمران خان کی دیرینہ خواہش تھی لیکن وہ ان کے کسی بھی غلط کام کا ثبوت ڈھونڈنے میں ناکام رہے اور اب انہوں نے نیب استعمال کرتے ہوئے 40 سال پرانا پراپرٹی کیس استعمال کیا ہے ، ، عمران خان اورن نیب کا گٹھ جوڑ بے نقاب ہو گیاہے۔ “

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نیب لاہور نے ملزم شکیل الرحمن کو پانچ مارچ کو طلب کیا تھا اور انھیں اس ضمن میں ایک سوال نامہ بھی فراہم کیا گیا تھا۔جمعرات کو نیب کے حکام نے میر شکیل الرحمن کو طلب کیا اور دو گھنٹے تفتیش کے بعد انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ نیب کے حکام کے مطابق ملزم کو جمعے کے روز لاہور کی احتساب عدالت میں پیش کرکے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا کی جائے گی۔

قومی احتساب بیورو کی طرف سے جس مقدمے میں میر شکیل الرحمن کو گرفتار کیا گیا ہے اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے ترجمان نے کہا ہے کہ سنہ 1986 میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاو¿ن میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 180 کنال اراضی پر استثنیٰ قرار دیتے ہوئے اسے ہدایت علی اور حاکم علی کے نام الاٹ کیا تھا جبکہ اس کی پاور آف اٹارنی میر شکیل الرحمن کے پاس تھی۔

نیب کی طرف سے جاری کیے بیان میں کہا گیا ہے کہ سنہ1986 میں اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف نے استثنیٰ کے قواعد کو تبدیل کرتے ہوئے 55 کنال پانچ مرلےاراضی ہدایت علی اور حاکم علی کے نام کردی جس کی اٹارنی میر شکیل الرحمن کے پاس تھی۔

اس بیان میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کسی بھی سرکاری ہاوسنگ سکیم میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ قرعہ اندازی کے ذریعے ہوتی ہے لیکن اس میں قرعہ اندازی نہیں کروائی گئی۔

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمن کو مختلف مقامات پر تین پلاٹ الاٹ کیے گئے جن میں 33 کنال کا پلاٹ کنال بینک روڈ پر،124 کنال کا پلاٹ سوک سیٹر کے پاس جبکہ 33کنال کا پلاٹ سوک سیٹر سے دور آلاٹ کیا گیا۔نیب کے حکام نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ اگر ان 55 پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں قرعہ اندازی کروائی جاتی تو ہر ایک الاٹی کو ایک ایک کنال کا ایک پلاٹ مل جاتا۔