• Mon. Jun 30th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کی نظر ثانی کی درخواست منظور کر لی

Apr 27, 2021

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سرینا عیسیٰ کی نظر ثانی کی درخواستیں منظور کر لی ہیں،جس کے نتیجے میں ان کے خلاف ہونے والی ایف بی آر کی کارروائی اور رپورٹ کالعدم ہوگئی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بینچ نے مختصر فیصلہ سنا دیا ہے، 10 ججز میں سے 6 ججز نے منظور کرنے کا فیصلہ دیا جبکہ 4 ججز نے مخالفت کی ۔جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس سجاد علی شاہ ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین نے فیصلے سے اختلاف کیا ۔ سپریم کورٹ کا اپنے فیصلے میں کہناتھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ، بچوں کے خلاف کسی فورم پر کارروائی نہیں ہو سکتی ۔ عدالت عظمیٰ نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجوانے کی ہدایت واپس لیتے ہوئے ایف بی آر کی جانب سے اقدامات اور رپورٹ کو غیر موثر قرار دیدیا ہے ۔ جسٹس منظور ملک اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا ۔

سپریم کورٹ نے کچھ دیر قبل دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ کہ آدھے گھنٹے میں دوبارہ آئیں گے ، فیصلہ بھی سنا سکتے ہیں یا یہ اعلان بھی کر سکتے ہیں فیصلہ کب سنایا جائے گا ۔

عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے حق دعویٰ نہ ہونے کا سوال اٹھایا تھا ،وفاقی حکومت کیس میں باضابطہ فریق ہے ، عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب مانگا تھا ، حکومت نے ریفرنس کالعدم ہونے پر نظر ثانی کیس نہیں کیا ، عدالت نے ریفرنس قانونی نکات میں بے احتیاطی برتنے پر کالعدم کیا تھا ، فیصلے کے مطابق سرینا عیسیٰ کو وضاحت کا موقع دیئے بغیر ریفرنس دائر کیا گیا ، عدالت کیس ایف بی آر کو نہ بھجواتی تو حکومت نظر ثانی کی اپیل دائر کرتی حکومت کیس ایف بی آر کو بھجوانے کا دفاع کرنے میں حق بجانب ہے ۔

عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے مجھ سے بھی تین سوالات کے جواب مانگے تھے ، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ عامر رحمان میرے ٹیکس یا فنانشل ایڈوائزر نہیں ہیں ، حکومت وکیل سے ایسا سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے ، جان بوجھ کر نئے مواد کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنایا جارہاہے ، جسٹس عمر عطا بندیال صاحب کیا آپ شکایت کنندہ ہیں ؟ ایسے سوالات سے آپ کوڈ آف کنڈٹ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ، جسٹس عمر عطا بندیال آپ اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ، ایف بی آر رپورٹ نظر ثانی درخواستوں کے بعد آئی ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظر میں اہلیہ کی دستاویز کا جائزہ لینا غلط ہے ۔

عامر رحما ن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین سوالت ہی سارے کیس کی بنیاد ہیں ، جسٹس فائز جواب دیں تو تناز ع حل ہو سکتا ہے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا مجھے ٹیکس کمشنر نے طلب کر رکھاہے جس پر گفتگو ہو رہی ہے ، کیا عدالت انکم ٹیکس آفیسر ہے ، ایف بی آر رپورٹ پر گفتگو کر کے وقت ضائع کیا جارہاہے ، کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت کیسز جلد نمٹانا ججز کی ذمہ داری ہے ۔

جسٹس منظور ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحب آپ کو اردو اور انگلش میں سمجھا چکا ہوں ، اب لگاہے کہ آپ کو پنجاب میں سمجھانا پڑے گا ، قاضی صاحب مہر بانی کریں اور بیٹھ جائیں ۔ عامر رحمان نے دلائل کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی آزادی ججز کے احتساب سے منسلک ہے ، ایک جج کے اہل خانہ کی آف شور جائیدادوں کا کیس سامنے آیا ہے ، ریفرنس کالعدم ہو گیا لیکن تناز ع برقرار ہے ،عوامی اعتماد کی بحالی کیلئے ضروری ہے کہ تنازع ختم ہو ، سپریم جوڈیشل کونسل تنازع کے حل کیلئے متعلقہ فورم ہے ، عدالت نے فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایت نہیں دی ۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ کی شکایت کنندہ سپریم کورٹ نہیں ہے ۔ عامر رحمان نے کہا کہ ایف بی آر ویسے بھی کارروائی کا پابند تھا ۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ مجبوری ہے کہ آج کارروائی مکمل کروانی ہے ، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز سے متعلق حقائق 2019 میں سامنے آئے ، حقائق سامنے آنے سے پہلے ایف بی آر کیسے کارروائی کر سکتا ہے ، حقائق سامنے آنے پر سوال اٹھا جائیدادوں پر فنڈنگ کیسے ہوئی ۔عامر رحما نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس ہونے کی وجہ سے ایف بی آر نے کچھ نہیں کیا ، جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کیسے اخذ کر لیا گیا کہ ایف بی آر کارروائی نہیں کر رہا تھا ، عامر رحما ن نے کہا کہ یہ بھی تو فرض کیا جارہاہے کہ ایف بی آر کارروائی نہیں کرے گا ۔

جسٹس منظور ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحب آپ کے بولنے سے عامر رحمان ڈر جاتے ہیں ، کیا حکومتی وکیل آپ سے لکھوایا کریں کہ کیا دلائل دینے ہیں ، جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کو ایک لطیفہ سنانا چاہتاہوں ، جسٹس منظور ملک نے کہا کہ بیٹھ جائیں لطیفہ بعد میں سنیں گے ۔عامر رحمان نے کہا کہ معززججز اور عدالتی ساکھ کا سوال ہے ، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکس دیئے کہ ادارے کی ساکھ کا تقاضا ہے کہ مسئلے کو حل کیا جائے ۔