وہ معصوم بچوں کی لہو رنگ تصاویر،ملبہ عمارات ،
جوانوں کے لاشے،جو ہم ایک دوسرے کو فارورڈ کرکے اپنے ایمانوں کی تجدید کرتے رہے ۔۔کیا ان کا اتنا ہی حق تھا ہم پر کہ۔۔۔
ان کے لیے فنڈنگ کر کے مطمئن ہو جائیں۔
سڑک پر آکر اپنے کلمہ گو ہونے کا ثبوت دے کر بیٹھ جائیں۔
یا اس سے آگے اقصیٰ کا کوئی اور قرض بھی ہے ہم پر۔۔
ایسا نہیں کہ اسرائیل کی کامیابی کی وجہ محض ان کے ہتھیار اور وسائل ہیں۔
وہ دنیا کی ذہین ترین قوم ہیں۔
ان کی آبادی ہمارے کراچی شہر کی نصف بھی نہیں۔دنیا کے نقشہ پر وہ بلبل کے آنسو سے بھی کم حجم رکھتے ہیں مگر۔۔۔
اپنے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے تمام علوم عبرانی زبان میں منتقل کرچکے ہیں۔
ان کا بچہ بچہ اپنی تاریخ سے واقف ہے۔ہیکل سلمانی کی لوریاں مائیں دوران حمل انکو سناتی ہیں۔پھر اس کے خواب انکو گھٹی میں پلاتی ہیں۔
ہمارے بچوں کو ارض فلسطین کی تاریخ کے بارے میں کچھ پتہ ہے؟؟
ہماری یونیورسٹیوں کے طالب علم صلیبی جنگوں کے بارے میں کتنا جانتے ہیں ،سوال کر کے دیکھ لیں۔
ہماری ضعیفی کی وجہ ہماری معاشی پسماندگی نہیں ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ سے ناتا توڑ لیا ہے۔
ناقدین کہتے ہیں ہماری تاریخ ایک رومانوی داستان ہے۔
ہم ماضی کو بھول کر مستقبل کی بات کریں ۔
سو، ہم نے تاریخ بھلادی۔
ہمارے بچوں کو تو سقوط ڈھاکہ کے بارے میں علم نہیں۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں کا سروے کر لیں۔
کتنے بچے تاریخ پڑھنا پسند کرتے ہیں؟
ہم یونیورسٹی میں تھے تو جنرل ہسٹری اور اسلامک ہسٹری پڑھنے والوں کے بارے میں یہی رائے عام ہوتی تھی کہ جن کو کہیں داخلہ نہیں ملتا وہ ان شعبوں میں آ جاتے ہیں۔
زندہ قومیں اپنی تاریخ کو اسلاف کی میراث کی طرح سینے سے لگا کر رکھتی ہیں۔
مجھے حیرت ہوتی ہے ہمارے بچے امریکہ میں ہسٹری اختیاری مضمون کے طور پر پڑھنا پسند کرتے ہیں ۔
ہماری امریکہ میں مقیم ایک عزیزہ بولیں”میں نے انگلش لینگویج کورس میں داخلہ لیا۔
انھوں نے تو امریکی تاریخ پڑھا دی!!
امریکی ہیروز،امریکی ڈرامے،امریکی اقدار اتنی تفصیل سے پڑھنا پڑے گی مجھے تو علم نہیں تھا۔”
یونہی تو اقبال قرطبہ اور اندلس کا ذکر نہیں کرتے۔
ہم نے اپنے بچوں کو وہ اعتماد ہی نہیں دیا جو تاریخ دیتی ہے۔۔
ہمارے بچے کیا جانیں کہ ہزار برس قبل علم کے” امام “ہم تھے۔
جس کو علم سیکھنا ہوتا تھا وہ پہلے عربی زبان سیکھتا تھا۔
جیسے آج کی نسل اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ و یورپ جاتی ہے اس وقت یورپ کے لوگ اندلس آیا کرتے تھے۔
تہذیب تمدن, صفائی ستھرائی کے لیے ہمارے شہر ایک عالم میں مثال تھے۔
ہماری تاریخ ایک روشن تاریخ ہے۔
اپنے آباء کا ذکر ہمارے لہو کو گرم رکھتا ہے۔
قرآن نے اہل عرب کو کہا کہ حج کے ایام میں جیسے فخر سے اپنے اسلاف کا ذکر کرتے تھے اب اللہ کو یاد کرو ۔۔
لوگ کیوں آباء کے کارناموں کو فخر سے یاد کرتے تھے!!!
اہل عرب تو اپنے گھوڑوں تک کے شجرۂ نسب اپنے بچوں کو یاد کراتے تھے۔
زندہ قوموں کے زندہ اطوار ہوتے ہیں۔
بنی اسرائیل کا ذکر یونہی تو قرآن میں اتنی شدت سے نہیں کیا گیا کہ انکے ماضی سے سبق سیکھیں ۔
مسجد اقصیٰ،سرزمین فلسطین ہماری عزیمتوں کی داستان ہے۔
جیسے ارطغرل رگوں میں لہو دوڑا دیتا ہے یہی مسلمانوں کا ماضی ہے۔
اپنے بچوں کو اپنے روشن ماضی سے جوڑیں تب وہ مستقبل کی پیش بینی کے قابل ہونگے۔