• Mon. Jun 30th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

”اثاثے اورھاسے“ تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

Aug 8, 2021

جھنگ میں میرے آبائی گاؤں میں محمدبخش عرف بخشا میرا پڑوسی ہے۔ وہ ایک سادہ دل اور زندہ دل انسان ہے۔ایک دن جب میں گاؤں پہنچاتو وہ کھونڈالے کر مرکزی راستے پر بیٹھاہوا تھا۔میرے استفسار کرنے پر اُس نے بڑی ”لے“میں بتایا کہ ابھی یہاں سے کپاس والے ٹرالے گزریں گے تو میرے کھونڈے کے ساتھ کپاس اٹک جائے گی اس طرح کپاس اکٹھی کر،کر،کے میں ایک دن بہت امیر ہوجاؤں گا۔یہ سن کر میرا”ھاسا“نکل گیا۔بخشا بولاہمارے ”اثاثے“ ہمیشہ سے تم لوگوں کے ”ھاسے“ کاباعث رہے ہیں ٭۔ شہر کے لوگوں کو عموماً اپنے ”اثاثوں“ سے بڑی محبت ہوتی ہے تو دیہاتی آدمی کیلئے اُس کی محبت ہی اُس کا سب سے بڑا ”اثاثہ“ ہوتی ہے٭۔شہر کے لوگ بعض اوقات ”ھاسے“ میں بھی اتنی کنجوسی سے کام لیتے ہیں جیسے یہ بھی ایک ”اثاثہ“ہوجبکہ گاؤں کے لوگ اپنے تمام ”اثاثے“ اپنے پیاروں کے ”ھاسے“ پروار دیتے ہیں اورانسانیت پربندے کاایمان سنوار دیتے ہیں۔٭
”اثاثے“اور”ھاسے“ جائز بھی ہوتے ہیں اور ناجائز بھی٭۔اپنے ہی بارے میں کوئی مزاحیہ بات کرکے جو”ھاسا“ آئے وہ جائز ہی نہیں،ثواب کا باعث بھی ہوتا ہے۔ ٭دوسروں کی کمزوریوں کی وجہ سے آنے والا ”ھاسا“نہ صرف ناجائز ہوتا ہے بلکہ عذاب کا باعث بھی ہوتاہے۔خود پر”ھاسے“ ہر دور میں جائز رہے ہیں مگرلوگ دوسروں پر ”ھاسے“کے پیاسے رہے ہیں ٭۔ محنت سب کا بہترین جائز”اثاثہ“ ہے ہروہ ”اثاثہ“جومحنت کے بغیر مل جائے ناجائز ہے۔٭
آج کے دور میں بھی وطن عزیز کے بعض لوگوں کے لیے ”اثاثے“ اور”ھاسے“ اجنبی ہیں ٭۔ ان لوگوں کی نسلیں پیٹ کے دوزخ کاعذاب جھیلتی ہیں۔ ان کانہ کوئی ”اثاثہ“ ہوتا ہے اورنہ ان کے چہرے پر کبھی ”’ھاسا“ نظر آتا ہے۔زندگی کاحادثہ ان کی روح تک چھیلنی کرچکا ہوتا ہے۔اللہ پاک تو قادروعادل ہے مگر ہمارے معاشرے میں بندہ مزدور کے اوقات بہت تلخ ہوتے ہیں اوراس کی اوقات کی تلخی اُس کا”ھاسا“ نگل جاتی ہے۔٭
بہت سے لوگوں کے اثاثے مدتوں سے ظاہر ہیں مگر کسی کوکوئی فرق نہیں پڑتاجبکہ کئی لوگوں کے اثاثے ظاہر ہوتے ہی اُن کا ظاہر و باطن سب پر عیاں ہوجاتا ہے اورایک عرصہ تک لوگوں کا”ھاسا“ نہیں روکتا٭۔مخلوق خدا ہروقت یہی نعرہ لگاتی رہتی ہے -:
”دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا“
بعض لوگوں کاھاساہی اُن کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتا ہے٭۔ غریب لوگوں کے اثاثے دیکھ کر بڑے لوگوں کا”ھاسا“ نکل جاتا ہے٭۔ بڑے لوگ اثاثوں کے حصول میں نیک وبد کی تمیز بھول جاتے ہیں۔ یہ بات بہت سے غریب لوگوں کیلئے ”ھاسے“ اور تماشے کاباعث ہوتی ہے٭۔
ہمارے ہاں عموماًوالدین او لاد کو اپنا سب سے بڑا اثاثہ سمجھتے ہیں تو بعض اوقات اولاد اپنے اثاثوں کی وجہ سے والدین کے ساتھ جوسلوک کرتی ہے وہ دیکھ کر بندے کاسانس بند ہونے کو آتا ہے اورزندگی شرمندگی لگنے لگ جاتی ہے٭۔ چند لوگ معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں تو کچھ لوگ معاشرے کا ھاسا ہوتے ہیں اوربعض افراد معاشرے کاخاصہ ہوتے ہیں ٭۔ بہت سے لوگ وطن کو اپنا اثاثہ سمجھتے ہیں تو چند ایک بدبخت وطن سے محبت کو صرف ایک تماشہ اور ھاساسمجھتے ہیں ٭ ایسے جاہل بھی دنیا کا حصہ ہیں جوانسانیت کونسل در نسل ورثے میں ملے اثاثوں کو”ھاسا“ اور ”تماشہ“سمجھتے ہیں۔ایسے سارے بدبخت کچھ عرصے کے بعدتاریخ کاکوڑا دان بھرنے کے کام آتے ہیں اورانسانیت کے غدار کہلاتے ہیں۔٭
تیسری دنیا کے بیشترممالک میں چند لوگوں کے ناجائز اثاثوں نے ایسا تماشہ لگا رکھا ہے کہ ترقی یافتہ دنیاکا”ھاسا“ہی نہیں رک رہا۔وہ ہم پہ ہنستے ہیں اور ہم ہنسنے کو ترستے ہیں۔٭ اثاثے ضروربنانے چاہیے مگر”ھاسے“بھی نہیں گنوانے چاہیے٭۔ بہت سے لوگوں نے اپنے اثاثے دوسرے لوگوں کے ھاسے چھین کر بنائے ہیں۔ایسے اثاثے مگرعارضی ہوتے ہیں اوراسی طریقہ کارسے کل کلاں کوئی اور اُن کامالک بن جاتا ہے٭۔ہمارے بزرگ اس مُلک کو اپنا اثاثہ سمجھتے تھے مگر ہم اس ملک کے اثاثوں کو اپنی ”مِلک“ سمجھتے ہیں۔٭
ہمارا سب سے بڑا اور حقیقی ”اثاثہ“ وہ لوگ ہیں جو سوچنا جانتے ہیں،جو علم کو ہی اپنی شان مانتے ہیں،خودکوسدا طالب علم گردانتے ہیں،روزوشب کائنات کے رازچھانتے ہیں،دکھی انسانیت کے سرپرسکون کی چادرتانتے ہیں ٭۔نہایت دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہم ایسے اثاثوں کو نظر انداز کرنااپناشعاربناچکے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو،ان کاجائزمقام دیاجائے تاکہ ہمیں دنیا میں اپنا جائز مقام مل سکے۔
ارض و سما کی اس کہانی میں وہ ساعت بہرحال آنی ہے جب زمین اپنے اثاثے باہر اُگل دے گی۔انسان اپنے ”ھاسے“ بھول جائے گااورہر”اثاثے“ کا پورا پورا حساب دے گا٭۔اللہ پاک ہم سب کو اس دن کی سختیوں سے اپنے حفظ وامان میں رکھے۔
(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہا ہیں)