دنیا کاسب سے آسان کام کسی کی توہین کرنا اوردنیا کا سب سے مشکل کام کسی کو اپنی توہین صدق دل سے معاف کرنا ہے۔انسان کا بڑا پن یہ ہے کہکسی کو چھوٹانہ سمجھے اوراگر کوئی خود کو اُس سے چھوٹا سمجھ رہا ہوتو اُس کو اپنے سے بہتر نہیں توکم از کم اپنے برابر کرنے کی پوری کوشش ضرورکرے۔کسی کو چھوٹا سمجھنا بہت آسان ہے تو کسی چھوٹے کو سمجھانا اگرچہ بہت مشکل ہے،مگر ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔افسوس ہم میں سے زیادہ ترلوگ اصلاح کرنے کی بجائے دوسروں کا مورال تباہ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ہم کسی کی غلطی بتاتے کم اورجتاتے زیادہ ہیں۔ اگر کوئی آدمی غلطی کر بیٹھے اور ہمارے ہتھے چڑھ جاے تو ہم اُس کے ساتھ ویساہی سلوک کرتے ہیں جو غلطی سے بارڈر کراس کرنے والوں کے ساتھ انڈین یااسرائیلی فورسز کرتی ہیں۔
بہت سے لوگ طنزکرنے کے معاملے میں ہمیشہ فراغ دل ثابت ہوتے ہیں۔ہمارے ایک سینئرڈاکٹر تھے جو خواتین کی نظر میں اپنا مقام بلند کرنے کیلئے اپنے تمام جونیئرزکونیچے دکھانے کے چکر میں لگے رہتے تھے۔ایک دن ایک جونیئرکے ساتھ لیڈی ڈاکٹرز کو ہنستا دیکھ کر دل پرلے گئے اور اُن پر شدید غم و غصے کی کیفیت طاری ہوگئی اپنی خفت مٹانے کیلئے انہوں نے ایک جونیئر ڈاکٹر سے غیرمتعلقہ سوالات پوچھنا شروع کردیئے جواب کوغیرتسلی بخش قراردیتے ہوئے انہوں نے نوجوان ڈاکٹرسے کہا کہ ”ڈاکٹر صاحب! آپ انٹرسٹ نہیں لیتے“،”آپ بالکل انٹرسٹ نہیں لیتے“۔ جونیئرڈاکٹرنے دو تین بار اُن کی بات سنی ان سنی کرنے کی کوشش کی مگر وہ ڈھٹائی سے اپناجملہ دہراتے رہتے۔آخر تنگ آکر متاثرہ نوجوان کہنے لگاسر میں اچھا کرتا ہوں جوانٹرسٹ نہیں لیتا،کوئی بھی اچھا مسلمان انٹرسٹ نہیں لیتا۔ آپ کو بھی انٹرسٹ نہیں لینا چاہیئے اوراس وقت آپ جس طرح کاانٹرسٹ لے رہے ہیں وہ توآپ کی عمر میں بالکل نہیں لینا چاہیئے۔ ایسے انٹرسٹ سے لوگوں کا انسانیت پر ٹرسٹ ختم ہوجاتا ہے۔
ایک اورصاحب کافی عرصہ جونیئررہنے کے بعد یکدم تھوڑے ہی عرصے میں پے در پے دوگریڈ کی ترقی پاگئے ساری عمر بنیادی سکیل میں ماتحتی کرنے کے بعد یکدم اُن کو اپنی عظمت کا احساس ہوا۔اور اُن کو اندازہ ہوا کہ اُن کی ذات قابل تقلید ہے وہ ہرمعاملے کی انجام دہی کیلئے بہترین مثالیں قائم کرچکے ہیں۔لوگ مگر اُن کے علم،تجربے اورذہانت سے فائدہ نہیں اُٹھا رہے یہ احساس ہوتے ہی وہ اپنے آپ کو کسوٹی مان کر نصیحتوں کاپلندہ پکڑ کر بیٹھ گئے اور جونیئرزکو بات بے بات اپنی سنہری مثال دے کر شرمندہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔اُن کیلئے یہ ثابت کرنابائیں ہاتھ کاکھیل تھا کہ اس وقت دنیا میں موجود واحد قابل انسان وہ خود ہیں۔ایک دن جب وہ ماتحتوں سے اپنی تعریف سن کرماتحتوں کی خوش قسمتی پر نازکررہے تھے تو ایک جونیئر اُن سے کہنے لگاسر آپ میں دنیا کی ہر خوبی موجود ہے، میں گنوانا چاہوں،بھی تو کبھی گنوانہ سکوں،مگرمیرے خیال میں آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ کسی کی غیبت نہیں کرتے اس کی واحد وجہ میری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ آپ ہربندے کو منہ پر ہی اتنا شرمندہ کردیتے ہیں کہ غیبت کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی یہ ہنراورکسی میں کہاں۔
ہمارے ہاں بسااوقات ہر شخص پیدائشی نقاد ہے۔ دوسرے پر ہر طرح کی تنقید کرنے میں مکمل آزاد ہے۔ دوسروں کوشرمندہ کرکے شادباد ہے۔اُس کو کوئی پرواہ نہیں کہ اب کسی کا مورال عمر بھر کیلئے برباد ہے۔ ایسے تمام بھائیوں سے میری ایک ہی فریاد ہے۔ دنیافقط پیار کے دم سے آباد ہے۔تنقید کرناچھوڑیں،پیارکرنا شروع کریں۔
ہمارے ہاں چائے کے کھوکھے والااپنی چائے بھلے”کور“ کرے نہ کرے”انضمام کے کور ڈرائیوسے لے کر ٹیوٹا کرولاکی لونگ ڈرائیوتک“ تمام اُمور پر اتنی مہارت سے بات کرتا ہے کہ بندے کواُس کے اعتماد پر پیار آنے لگتا ہے ہمیں حالات حاظرہ کے متعلق اُس کے علم پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر وہ چائے بنانااور پلانا بھی جانتا ہوتو اس میں بھی چنداں مضائقہ نہیں۔
یوسفی صاحب فرماتے ہیں کہ انہیں اس بات پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں کہ ہمارے ہاں لوگ بواسیر کاعلاج راکھ سے کرتے ہیں۔انہیں اعتراض اس بات پر ہے کہ اُن کے مریض ٹھیک ہوجاتے ہیں مجھے بھی اس بات پر کبھی غصہ نہیں آیا کہ ہمارے ہاں لوگ ہرطرح کامشورہ دینے میں قطعاًدیر نہیں لگاتے۔ ہمارے ہاں تمام افراد”اورپوچھوڈاٹ کام“ ہیں۔کبھی کبھی اس بات پر دل ضرور دکھتاہے کہ ہمیں ہرکام میں مہارت حاصل ہے سوائے اُس کام کے جو کام ہمارا اپنا کام ہے جس سے ہمارا روزگاراورعزت وابستہ ہے۔اگر بندہ گاڑی کی مرمت کروانے چلاجائے تو مستری اُسے اپنی ذاتی مرمت کے سو نسخے بتادیتا ہے۔آدمی کو ڈاکٹر اور حکیم کی محتاجی سے نجات مل جاتی ہے مگرگاڑی تین دن بعد دوبارہ ورکشاپ لاناپڑتی ہے۔
بینک میں رکھی رقم پر انٹرسٹ لیناجائز ہے یاناجائز،اس بارے میں عالم حضرات ہی قوم کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ میرے جیسا عاجز انسان اتنا بہرحال جانتا ہے کہ اپنے کام میں انٹرسٹ لینا نہ صرف پسندیدہ امر ہے بلکہ ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے کام میں مہارت حاصل کریں۔اسلام کے مطابق ظلم کی ایک شکل اپنا کام ٹھیک طریقے سے انجام نہ دینا ہے اورعدل یہ ہے کہ اپنا کام بہترین طریقے سے سرانجام دیا جائے۔
اگرہم نے اپنے کام میں انٹرسٹ لینا چھوڑ دیا تو دنیاہم پرٹرسٹ کرنا چھوڑ دے گی۔کسی کاانٹرسٹ کسی کے ٹرسٹ سے براہ راست وابستہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں انسانیت کی بہتری کیلئے انٹرسٹ لینے اور ایک دوسرے کے ٹرسٹ کوقائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔یہ ٹرسٹ ہی دنیا کاحسن ہے اور اس ٹرسٹ کو قائم رکھنا ہرانسان کا بنیادی فریضہ ہے۔
(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہے اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہا ہے)
ڈاکٹرصاحب! آپ انٹرسٹ بالکل نہیں لیتے“ تحریر:ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
