اپنے آپ کاغلط اندازہ لگاتے ہوئے دوسرں کے مقابلے میں خود کوحقیرسمجھنااحساسِ کمتری کہلاتاہے۔اکثر یہ سوال ذہین میں گونجتا رہتاہے کہ یہ ایساہے تو میں ایسا کیوں نہیں؟اسے یہ مقام حاصل ہے تومجھے کیوں نہیں؟ یہ ایک طرح کی نفسیانی بیماری ہے جس میں آج کل ہماری پوری قوم مبتلانظرآتی ہے۔کوئی زبان کو لے کراحساس کمتری کا شکارہے توکوئی اپنے فیملی بیک گرؤنڈ کولے کر،کسی کوتعلیمی ادارے کو لے کر احساس کمتری ہے توکسی کونوکری کے حوالے سے، ہردوسرا بندہ کسی نہ کسی طور اس بیماری کاشکار ہے اور مزے کے بات یہ ہے اس بیماری میں مبتلا شخص کبھی اپنے آپ کوبیمار مانے کوتیار ہی نہیں ہوتا جیسے کہ ہمارے حکمران اورعوام۔ایسے لوگ ہر رنگ میں ڈھلنے کی کوشش کرتے ہیں اوراس کوشش میں ان حال وہی ہوتاہے کہ”کوٰاچلاہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا “۔ سب سے بڑی احساس کمتری یا کمپلیکس جس میں ہم لوگ مبتلاہیں وہ لباس اور زبان کی ہے۔اگر لباس کی بات کی جائے تو اس معاملے میں ہمارہ دوہرامعیارہے انگریزی لباس پہننے والے کوپسند بھی نہیں کرتے اوراسی کوبرتری کی علامت بھی سمجھتے ہیں۔اگر کوئی انگریزی لباس پہننے والاہے تو ”ول ڈریس“ اور اگر کوئی دیسی لباس پہننے والا ہے تو”دیہاتی اور پینڈو“۔دوسری سب سے بڑی احساسِ کمتری جس میں آدھے سے ذیادہ پاکستانی قوم مبتلانظرآتی ہے وہ ہے ”زبان“۔کہنے کو ”اردو“ ہماری قومی زبان ہے مگر ہمارے نزدیک انگریزی بولنے والا اچھا ہے،اگر میں یہ کہوں کہ آذادی کے اتنے سال بعدبھی ہم اپنی قومی زبان کے بارے میں ”کمپلیکس یعنی احساس محرومی یا دوسرے لفظوں میں احساس کمتری“کاشکار ہیں توصاحبو! میرا یہ کہنا غلط نہ ہوگا،ہمارے سامنے اگرکوئی بندہ فرفرانگریزی بول رہاہوتوہم اُسے ایسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں جیسے اسے جنت میں جانے کا ٹکٹ مل گیا ہو اور ہم اس سے محروم رہ گئے ہیں۔یہ تو تھی عام آدمی کی بات زبان کے سلسلے میں سب سے ذیادہ کمپلیکس کاشکار ہمارے ماہرین تعلیم نظرآتے ہیں جنہیں قیامِ پاکستان سے لے کرآج تک سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ہمارانصابِ تعلیم کس زبان میں ہوناچاہیے؟اسی لیے ہمارے سکولوں کے بچے سب سے ذیادہ احساس محرومی کاشکارنظرآتے ہیں۔ایک بچہ کلاس میں فیل ہوگیا باپ نے ڈانٹتے ہوئے کہا ”کیا میں تمہیں اس لیے شہرکے سب سے مہنگے سکول میں بھیجتا ہوں کہ تم فیل ہوجاؤ“ تو بچے نے بڑی معصومیت سے جواب دیا”پاپا!گھرمیں مادری زبان بولنے،سکول میں دوستوں کے ساتھ اردو میں بات کریں اور نصاب ہم انگریزی میں پڑھیں ہون تُسی آپ ای دسو ایتھے بندہ فیل نہ ہووے تے ہورکی ہووے؟“۔ ہمارے ماہرین تعلیم بھی بلکل اس بچے کی طرح پریشان ہیں۔اور تواور ہمارے حکمران بھی اس احساسِ محرومی کا شکارنظرآتے ہیں تبھی تو انہیں لگتا ہے کہ اپنی قومی زبان کی بجائے انگریزی زبان میں کی گئی بات میں ذیادہ وزن ہوتاہے حالانکہ ان کے سامنے کتنے ہی ممالک کی سربراہوں کی مثالیں موجود ہیں جن کی بات ان کی اپنی قومی زبان میں سُنی جاتی ہے اور وزن رکھتی ہے مثلاََ ہمسایہ ملک چین کی مثال ہی لے لیں کیا کبھی کسی نے چین کے سربرہ کوانگریزی میں بات کرتے سُناہے حالانکہ کہ چین دُنیا کی دوسری بڑی سپرپاور ہے اس کے بعد سب کے لیے مثال بننے والے ترک صدر ”رجب طیب اردگان“ کوہی دیکھ لیں کیا کبھی کسی نے انہیں انگریزی میں بات کرتے سُنا ہے دُنیا کے کسی بھی فورم پر؟ توکیا اس کی بات نہیں سُنی جاتی یا وزن نہیں رکھتی؟۔مگرقربان جاؤں اپنے ملک کے حکمرانوں پہ جو عوام کے ساتھ بھی انگریزی میں بات کرنا پسند کرتے ہیں شایدانہیں ایسا لگتاہے کہ اگر وہ اردو میں بات کریں گے تو لوگ انہیں نااہل ہی نا سمجھ لیں اور اگر کسی حکمران کوخیال آ ہی جائے اردو میں بات کرنے کا تواس خطاب میں بھی انگریزی کے الفاط ذیادہ اور اردو کے کم ہوتے ہیں اور کچھ ہو یا نا ہو ایک فائدہ ضرور ہوجاتاہے کہ عوام خوش بھی ہوجاتے ہیں کہ حکمران نے اردو میں بات کی، انہیں کوئی بات سمجھ بھی نہیں آتی اور حکمران کابھرم بھی قائم رہ جاتاہے۔یعنی آم کے آم کھٹلیوں کے دام۔اس بار ایک کالج میں منعقد ہونے والی جشنِ آذادی کی تقریب میں مجھے اظہارِ خیال کے لیے کہاگیا پرساتھ ہی یہ سوال بھی کردیا گیا کہ اظہارِ خیال انگریزی میں کریں گی یا اردو میں؟۔تو میں نے کہا ”اللہ کی بندی! موقع بھی ہے،محفل بھی ہے اور حلقہ یاراں بھی ہے تو کیوں نا اپنے زبان(اردو) میں ہی بات ہوجائے۔ہوسکتا ہے کہ یہ معقولہ سچ ثابت ہوجائے”شایدکہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات“۔نقیب ِ محفل کے اس سوال پرمیرے ذہین میں یہ شعرگونج رہا تھا!
ع: یوں لپٹی ہے پاؤں سے زنجیرغلامی کی
دن آجاتاہے آذادی کاآذادی نہیں آتی
یہ صورت حال ہم لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اگریہی صورتِ حال باقی رہی تووہ وقت دور نہیں جب ہماری”زبان“ اور ہماری”تہذیب“ کابھی وہی حال ہوگاجودُنیا کی اور بہت سی مٹتی ہوئی زبانوں اور تہذیبوں کا ہورہاہے۔اس صورتِ حال میں ہمیں اس احساسِ کمتری سے نکلناہوگا اور اپنی زبان وتہذیب کواہمیت دیناہوگی۔ورنہ ہماری آنے والی نسلیں اس احساسِ محرومی کاشکارہوکرموجودہ مقام بھی کھودیں گی۔کیونکہ بات توسچ ہے مگربات ہے رسوائی کی۔ذرا سوچئے۔اللہ ہم سب کاحامی وناصر۔