• Sun. Jun 29th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

ویکسین آف کورونا اور ہمارا رونا دہونا تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

Sep 2, 2021

میرے ایک جاننے والے ابھی حال ہی میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں وہ کورونا کی ویکسین کروا تو چکے ہیں مگر اس کے اثرات کے بارے میں انتہائی فکرمند رہتے ہیں۔ میں نے ان کی فکر مندی دیکھتے ہوئے ایک دن انہیں گزارش کی کہ بجا ہے کہ اگربعض افرادریٹائرڈہو بھی جائیں تو اُن کے اثرات اورلوگوں کے اُن کے بارے میں تاثرات کافی دیر تک جاری رہتے ہیں ۔مگر سائنس یہ کہتی ہے کہ جب کسی ویکسین کا ری ایکشن ہونا ہو توعمومی طور پرجلد ہوجاتا ہے۔ مگر کورونا کی بیماری کو بعض لوگ بالکل سنجیدہ نہیں لے رہے جبکہ ویکسین بیچاری کو رنجیدہ کررہے ہیں وہ پوری سنجیدگی سے یقین رکھتے ہیں کہ ویکسین اُن کے خلاف عرصہ دراز سے جاری عالمی مہم کا ایک نیا روپ ہے۔ صرف ایک بہروپ ہے۔ویکسین اپنی جگہ ایک بیماری ہے اور مقصدلوگوں کی لاچاری ہے ۔
کورونا کی ویکسین کے ساتھ ہمارا رویہ پرانے زمانے کی اس خاتون جیسا ہے جو ایک روپے کا کھلا لینے ایک دکاندار کے پاس گئی۔دکاندار نے دوا ٹھنیاں اس کے حوالے کر دیں خاتون تھوڑی دور گئی تو اس کو خیال آیا کہ دکاندار نے اتنی آسانی سے اس کو دو اٹھنیاں دے دیں توضرور اس کو کوئی نہ کوئی فائدہ ہوا ہوگا اوردوکاندار کو کوئی رقم بچ گئی ہوگی۔ وہ واپس گئی اور اس نے دکاندار کو کہا کہ آپ یہ دواٹھنیاں واپس لے لواور میرا روپیہ مجھے واپس کرو۔ دکاندار نے اُس کی بات مان لی اوراُس کا روپیہ اُسے واپس کردیا۔خاتون کو تھوڑی دور جانے کے بعد پھر احساس ہوا کہ دوکاندار نے اتنی آسانی سے اس کی بات مان لی ہے تو دوکاندار کو کوئی نہ کوئی فائدہ ہواہوگا۔وہ پھردوکاندار کے پاس آئی اورکہنے لگی روپیہ تم اپنے پاس رکھو اوراٹھنیاں مجھے دے دو۔ دوکاندارنے گاہکوں کا رش ہونے کی وجہ سے بحث کرنے کی بجائے خاتون کوروپیہ بھی دے دیا اور اٹھنیاں بھی دے دیں اور کہا کہ یہ دونوں تم رکھو۔ خاتون اٹھنیاں اورروپیہ لے کر واپس توجا رہی تھی مگرسوچ یہی رہی تھی کہ دکاندار کو کچھ نہ کچھ ضرور بچ گیاہے۔
”منی“تو اپنی ڈارلنگ کے لیے بدنام ہوئی تھی اور ڈارلنگ کو اس بات کا احساس بھی تھاکہ ”منی“ بیچاری میر ی خاطر بدنام ہوچکی ہے اگرچہ ”منی“اتنی بھی منی نہیں تھی کہ کسی کی خاطر مفت میں بدنام ہوجاتی لیکن کورونا کی ویکسین کانصیب تو ”منی“ سے بھی گیا گزرا لگتا ہے۔ویکسین جن کے فائدے کیلئے بنی ہے وہی اس کے مخالف ہیں۔کورونا کی ویکسین بجا طور پر یہ کہہ سکتی ہے -:
اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
ہمارے ایک شاعردوست اس فکر میں غلطاں رہتے تھے کہ جولوگ گھبراہٹ میں یہ کہتے تھے کہ مرجائیں گے لیکن اگر انہیں مر کے بھی چین نہ ملا تو کدھرجائیں گے۔ایسے ہی پوری عالم انسانیت کو یہ اُمید تھی کہ ویکسین بن گئی تو معاملہ حل ہوجائے گا لیکن ویکسین سے معاملہ حل ہونے کی بجائے نئی ہل چل میں پڑ گیا ہے۔
الحمدللہ ویکسین مارکیٹ میں ہروقت دستیاب ہے مگر لوگوں کی ایک کثیر تعدادویکسین کو ذلیل و خوار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ لوگ ویکسین کے نہیں عقل اور دانش کے دشمن ہیں ۔یہاں دانش سے میری مراد مشہور ڈرامے کاہیرو نہیں بلکہ وہ دانش ہے جس کو حکمت بھی کہاجاتا ہے اورجومومن کاگم شدہ مال ہے۔ہمیں یہ حکم دیاگیا ہے کہ عقل کی بات کی ہمیشہ پیروی کریں مگر ہم معقول بات کے خلاف بات کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اورننانوے فیصدعلم و دانش کوایک فیصدشک و شبہات پر فوری قربان کردیتے ہیں۔ ہمار طرز فکر غیر سائنسی ہونے کے ساتھ ساتھ غیرمنطقی بھی ہوتاجارہا ہے۔پہلے ہمارے ہاں دانائی کی بات کرنے والے کی عزت تھی جبکہ آج کل رسوائی کی بات کرنے والے کو فوری سناجاتا ہے اوراُس کی ہرغیرعقلی بات پر سر دُھناجاتا ہے۔
میری تمام دوستوں سے یہ گزارش ہے اگر ہم عالم انسانیت کی خدمت کیلئے دن رات ایک نہیں کرسکتے تو ہمیں اُن لوگوں کی مذمت سے بھی گریزکرناچاہیئے جن کی کاوشوں کی برکت سے انسان آج بیماریوں کے خلاف اپنی جنگ میں جیت کے قریب ہے٭۔قرآن مجیدہمیں یہ درس دیتا ہے کہ جو بات ہم نہ جانتے ہوں وہ ہمیں علم والوں سے پوچھنی چاہیئے اور علم والوں کی رائے پرسرتسلیم خم کردینا چاہیئے مگر ہم نہ تحقیق کرتے ہیں نہ کسی فضول بات کوپھیلانے سے پہلے تشویش لاحق ہوتی ہے۔سنی سنائی بات بغیر تحقیق و تصدیق کے آگے پھیلانابہت بڑاگناہ ہے۔ہمیں گناہ اورکوروناکے خلاف جنگ کرنی چاہیئے نہ کہ ویکسین اور ویکسین بنانے والوں کے خلاف۔
(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہے اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہا ہے)