• Wed. Jul 2nd, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

چندا،دھندہ اور زندگی کا پھندا“ تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

Sep 13, 2021

”چندا“ بعض لوگوں کیلئے حاصلِ زیست ہے تو بعض لوگوں کی حیات”چندہ“ہے۔چند کیلئے زیست صرف ایک دھندہ، تو دوسروں کیلئے گورکھ دھندہ ہے۔غریب کیلئے زندگی سدامندہ اورہرپل ایک نیا پھندہ ہے۔کسی کے نصیب میں اس کی ”چندا“ ہوتی ہے تو کسی کی زندگی بہت ہی پراگندہ ہوتی ہے۔ہمارے معاشرے میں غریب ماں کا”چندا“پیداہونے کے فوراً بعدہی دھندے کے چکر میں پڑ جاتا ہے اور اس کاگزارا لوگوں کے ”چندے“ پرہوتاہے۔ اُس کو ورثے میں اتنے پھندے ملتے ہیں کہ عمر تمام ہوجاتی ہے مگرپھندے نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔زندگی کا ”رندا“ غربت کی رگڑسے اتنا تیز ہوجاتا ہے کہ نسلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے اورکئی عہد بھی ان ٹکڑوں کو سمیٹ نہیں پاتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نادارکی ”چندا“سرمائے دارکیلئے ہمیشہ دھندہ رہی ہے۔
ہمارے ملک میں کتنے ”چندا“ہیں جن کو زندگی بھر ”چندہ“مانگنے کے سواکچھ سکھایانہیں جاتا۔”چندہ“ ہی اُن کیلئے دھندہ ہوتا ہے مگر درحقیقت ایک پھندہ ہوتا ہے۔پتہ نہیں ”چندا“،”چندہ“ کھا رہا ہوتا ہے یا ”چندہ“،”چندا“ کو کھاجاتا ہے۔ایک شاعر نے مدتوں پہلے کہا تھا کہ ”بندہ روٹی کونہیں،روٹی بندے کوکھاجاتی ہے“۔ ایک مفکر نے کہاتھا ”ایک بچے کی موت ایک کائنات کی موت ہوتی ہے،وہ کائنات جو اُس نے بڑے ہو کر تخلیق کرنی ہوتی ہے“۔تیسری دنیا کے بچوں میں ابتدائی سالوں میں اموات کی شرح ترقی یافتہ ممالک کی شرح سے بہت زیادہ ہے۔جو بیماری اور خوراک کی کمی کے ہاتھوں نہیں مرتے، اُن کے خواب غربت کی مقتل گاہ کی نذر ہوجاتے ہیں۔کتنے ”چندا“ ہیں جن کے جذبے حصول رزق کے ہاتھوں چھن جاتے ہیں۔اُن کی نسلوں کا مقدر ا زلی،نسلی اوراصلی تنہائی ہے۔
ایک شاعر نے اپنے محبوب کے چہرے کے بارے میں کہاتھا کہ وہ چاندچہرہ،ہزاروں ستاروں کوتوڑ کراُن کی آمیزش سے بنایاگیا ہے۔ زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ یہاں چاند چہرے ہرلحظہ خود ٹوٹ پھوٹ کا شکاررہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ ٹوٹ پھوٹ عمر بھرکسی کو نظر نہیں آتی اور چاند خلوت میں پھوٹ پھوٹ کر روتا رہتا ہے۔ ایک شاعرکو اس کامحبوب اپنا پتہ دیتے ہوئے زیر لب ہنس رہا تھا کیونکہ محبوب کاگمان تھا کہ اُس جیسے تارے کو کبھی خاک چھونہیں سکتی۔مگر اس فانی دنیا میں تارے جیسے لوگ روز خاک ہوجاتے ہیں۔وقت افاق کے جنگل کاوہ جوان چیتا ہے جو ہردور کے غزالوں کا لہوپیتا ہے۔وقت کی دھول میں چاند چہرے گم ہوجاتے ہیں۔گرد سے اٹ جاتے ہیں اوراتنے ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں کہ ان کو پہچاننا مشکل ہی نہیں، نا ممکن ہوتا ہے۔زندگی کے دھندے میں بعض اوقات حالات کا رندا ا تناتیز چلتا ہے کہ ”چندا“ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔کوئی ٹکڑا کہیں گرتا ہے تو کوئی ٹکڑا کہاں گرتا ہے یہ پتہ بھی نہیں چلتا؟ ان ٹکڑوں کوسمیٹنا انسان کے بس کی بات ہی نہیں ہوتی۔
جس ہستی کو اللہ کی ذات ”چندا“ بنائے، اُسے کوئی گندا نہیں کرسکتا۔بہت سے لوگوں کادھندہ ہی یہی ہوتا ہے کہ کسی طریقے سے ”چندا“ کو گندا کیاجائے مگرسیانے بہت پہلے کہہ گئے تھے کہ ”چاندپر تھوکامنہ پہ آتا ہے“۔ساری بات احساس کی ہے۔ بہت سے لوگ دوسروں کو خراب کرنے کے چکر میں اپنی زندگی عذاب کرتے رہتے ہیں مگراحساس زیاں اُن کو نہیں ہوتا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے قلب، بصارت اور سماعت پر مہر لگا دی جاتی ہے۔کتنے ہی لوگ ہیں جوہمارے خدا کے نام پر”چندہ“ لے کر اپنی”چندا“ کوپیش کرتے رہتے ہیں۔انجامِ کار اُن کونہ خدا ملتا ہے اور نہ ہی وصال صنم نصیب ہوتا ہے۔یہ وہی لوگ ہیں اس جہان میں بھی اندھے ہوتے ہیں اوراگلے جہان میں بھی اندھے ہی رہیں گے۔ خدا کے نام کو دھندہ بنانے والے سے پراگندہ انسان کوئی ہونہیں سکتا۔بعض لوگوں کیلئے ”چندا“ کی بات بھی دھندے کی بات ہوتی ہے جبکہ غریب کا”چندا“بھی اُس کا دھندہ ہی ہوتا ہے۔
بعض لوگ ”چندا“ کے بغیر جی نہیں سکتے تو کچھ ”چندے“ کے بغیر جی نہیں سکتے۔کسی کیلئے”چندا“کے بغیرزندگی ناممکن ہے تو ایسے بھی ہیں جو”چندے“ کے بغیر جی نہیں سکتے۔کسی کو”چندا“ مل جائے تو اُس کی زندگی سنور جاتی ہے اور کسی کونہ ملے تو ”چندا“ کی زندگی سنور جاتی ہے۔ بعض لوگ ”چندہ“ اکٹھا کرکے اپنی دنیابہتراوراپنی آخرت بدتر کرلیتے ہیں۔اسی طرح بعض لوگوں کی نظر ساری زندگی دوسروں کی ”چندا“ اور دوسروں کے”چندے“ پر رہتی ہے۔اس مشغلے میں وہ اپنا دھندہ تک بھول جاتے ہیں۔کوئی ”چندہ“ اکٹھا کرتے کرتے عمر گزار دیتا ہے تو کوئی جہاں بھی کسی کی”چندا“ دیکھے، اُس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ اس چکر میں زمین آسمان ایک کردیتاہے۔ کسی کی دنیا اُٹھا کر اپنی کائنات کاحصہ بنالیتا ہے۔ ایسی کائنات کو ثبات نہیں اوریہ اشرف المخلوقات کی اوقات نہیں۔
ہرشخص کی کوئی نہ کوئی ”چندا“ضرورہوتی ہے۔جواُس کی دسترس میں ہویانہ ہو،مگراُس کے نور سے زندگی جگمگاتی رہتی ہے۔ ایک شخص کے تصور سے خیال نکھرجاتے ہیں۔مگر کیا کہیے کہ بعض اوقات ”چندا“کااپنا نصیب اتنا تاریک ہوتا ہے کہ سارے خواب بکھر جاتے ہیں۔ بعض اوقات ”چندا“ کے اردگرد بادل اتنے گہرے ہوجاتے ہیں کہ ”چندا“ کادیدارناممکن ہوجاتا ہے۔ بادل چھٹنے میں اتنی دیر لگ جاتی ہے کہ ”چندا“ دیکھناہی بھول جاتی ہے۔ روح میں اندھیرے مسکن بنالیتے ہیں۔کسی خواب کاسورج صدیوں طلوع نہیں ہوتا۔
کچھ لوگوں کابچپن ”چندا“کو ماموں کہتے اورجوانی ”چندا“کوماموں بناتے گزر جاتی ہے۔ویسے تواب ”چندا“ کوبھی لوگوں کو ماموں بنانا آ گیا ہے۔ ”چندا“کوپتہ چل گیا ہے کہ وہ بعض لوگوں کیلئے محض ایک دھندہ ہے کیونکہ اُس کے گلے میں غربت کاپھندا ہے اور یہ معاشرہ بہت گندا ہے۔دعا ہے کہ نادار ”چندا“، ”چندے“ کے بغیروقت کے آسمان پرجگمگائے اورتاریخ بدل جائے۔
(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں)
شکریہ نیوز ٹائم