روم(نمائندہ خصوصی) کئی مہینوں تک خطرناک راستوں کا سفر اور سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے اٹلی جانے والا شخص اب وہاں پھنس کر رہ گیا ہے۔ عدالت نے اس کی پناہ کی درخواست مسترد کردی ہے جس کے بعداسے ڈی پورٹ کئے جانے کا امکان ہے۔
عارف(فرضی نام) یہ شخص کسی بھی قیمت پر پاکستان جانے کو تیار نہیں ہے، جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق اس کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی قیمت پر واپس پاکستان نہیں جاوں گا، وہاں روزگار بھی نہیں، وزیر اعظم کا بیان تھا کہ ان کا اپنی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا، وہ تو دو فرد، میرے کنبہ میں 10 افراد ہیں میں کیسے گزارا کروں“
جرمن نشریاتی ادارے میں شائع تفصیلات کے مطابق اٹلی میں سیاسی پناہ کے قوانین میں شدید سختیوں کے بعد وہاں سیاسی پناہ حاصل کرنا اب آسان نہیں رہا۔اطالوی حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انسانی تحفظ کی شق کو ہی ختم کردیا ہے جس کے بعد اب سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر درخواست گزار کو وطن واپسی کے مراکزمنتقل کر کے انہیں ملک بدرکر دیا جائے گا۔اٹلی کی جانب سے جاری کردہ اس قانون کو سابق وزیر داخلہ ماتیوسالووینی نے2018 ءمیں نافذکرانے میں اہم کرداراداکیاتھا۔اسی مناسبت سے اس متنازعہ حکم کو ‘سالووینی ڈکری‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق اطالوی حکومت کے اس نئے فرمان اوراس کے تحت درخواستیں مسترد ہونے سے ہزاروں لوگ متاثرہوں گے جن میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ایسے ہی ایک پاکستانی سیالکوٹ کے رہائشی عارف(فرضی نام) بھی ہیں جن کی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔
ڈی ڈبلیو کے مطابق عارف کا کہنا ہے کہ وہ بہتر مستقبل کی تلاش میں 2015 ءمیں کئی مہینوں پر مہیط خطرناک سفر کر کے یورپ میں داخل ہوئے۔ اس دوران انہوں نے انتہائی کٹھن اور دشوار گزار راستے طے کیے جس میں منفی درجہ حرارت میں 20 گھنٹے تک پیدل سفر کرنا بھی شامل تھا،عارف کے مطابق ”اسی راستے پر ہم سے پہلے گزرنے والے کچھ لوگوں کی لاشیں بھی نظر آئیں جنہیں دیکھ کر ایک لمحہ تو ہمت جواب دے گئی۔ ترکی سے یونان کے راستے یورپ میں داخل ہوئے اور پھر یونان سے مقدونیا، سربیا اور ہنگری تک پیدل سفر کیا۔ شدید مشکلات سے گزر کر ہم بالآخر جرمن شہر میونخ پہنچے،جہاں سے ہمیں لِمبرگ شہر کے پناہ گزین کیمپ میں بھیج دیا گیا۔“
عارف کے مطابق ابتدائی کاغذی کارروائی کے بعد انہیں ڈھائی ماہ کا عارضی رہائشی کارڈ جاری کیا گیا اور رہائش بھی فراہم کر دی گئی۔ مگر جرمنی میں جب انہوں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جنہیں سالہا سال سے سیاسی پناہ نہیں ملی تھی تو وہ جرمن حکام کو اطلاع دیے بغیر اٹلی چلے گئے، جہاں وہ بلزانو نامی شہر میں داخل ہوتے ہوئے پکڑے گئے۔ اس موقع پر پولیس نے ان کے فنگر پرنٹ چیک کیے تو انہیں واپس جرمنی جانے کا کہا گیامگر وہ دوبارہ اٹلی داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور پناہ گزین کیمپ میں اندراج کرا دیا،”مجھے چھ ماہ کا رہائشی اجازت نامہ دیا گیا، جس کی تجدید ہوتی رہی تاہم 2018 ءمیں میرا سیاسی پناہ کا کیس مسترد ہوگیا۔“
اس دوران عارف نے آسٹریا میں بھی قسمت آزمائی کی اور اب ایک بار پھر وکیل کے ذریعے سیاسی پناہ کا کیس داخل کرایا ہواہے، ” اگر کیس دوبارہ مسترد ہو گیا تو پھر کچھ اور سوچوں گا شایدجرمنی چلا جاو¿ں جہاں پہلی بار فنگر پرنٹ دیئے تھے۔“
اتنی مشکلات اور دشواریوں کے باوجود عارف واپس پاکستان جانے کو تیار نہیں ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”ابھی امید ہے کہ شاید کچھ ہو جائے گا اگر نہیں بھی ہوا تو کسی بھی قیمت پر واپس پاکستان نہیں جاو¿ں گا۔ قرضہ لے کر آیا ہوں۔ وہاں روزگار بھی نہیں۔ ابھی ہمارے وزیر اعظم صاحب کا بیان تھاکہ ان کا اپنی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ ان کا تودو فرد کا کنبہ ہے جبکہ میرے کنبہ میں 10 افراد ہیں میں کیسے گزارا کروں گا؟“
یہ صورتحال صرف پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی ہی نہیں ہے بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور عراق وغیرہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اپنے وطن واپسی پر آمادہ نہیں ہیں۔ ایسے ایک شخص عبدالرحمان ہیں۔ وہ گزشتہ آٹھ سالوں سے اٹلی میں ہیں اور اب ان کے رہائشی پرمٹ کی تجدید نہیں ہو رہی کیونکہ ان کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔ وہ پر امید ہیں کہ ان کی نئی درخواست جلد قبول ہوجائے گی۔
واضح رہے گزشتہ سال اٹلی میں 80 ہزار سے زائد سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی گئیں۔ پناہ گزین کیمپوں میں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ لوگ انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف امیگریشن اور سیاسی پناہ کے قوانین میں تبدیلیوں کی پرواہ کیے بغیر لوگ اب بھی مسلسل اٹلی آرہے ہیں۔