• Sat. Jun 28th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

چلو پھر ڈھونڈ لیتے ہیں اسی نادان بچپن کو تحریر: وجاہت علی عمرانی

May 1, 2020

ڈیرہ اسماعیل خان سے اسدعباس نمائندہ نیوز ٹائم
عنوان کالم

چلو پھر ڈھونڈ لیتے ہیں اسی نادان بچپن کو

تحریر: وجاہت علی عمرانی

دیار ِ غیر میں بسنے والا، ڈیرہ کا سپوت حفیظ الحسن جو ادب شناس بھی ہے اور ادب پرست بھی۔ جسکی سوچ و قلم کا محور ہمیشہ ڈیرہ اسماعیل خان ہی رہا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک پوسٹ کے زریعے سوال کیا کہ ہماری ان رسوم و روایات کے بارے بتائیں جو زمانے کی ساتھ ساتھ ختم یا معدوم ہو گئیں ہیں۔ سینکڑوں دوستوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ محکمہ تعلیم کی ڈپٹی ڈائریکٹر محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ جیسی صاحب ادراک اور بابصیرت خاتون نے کچھ ایسی معدوم ہوتی رسوم و روایات اور کھیلوں کے بارے بتایا جن کو پڑھ کر ہر شخص اپنے ماضی اور بچپن میں کھو گیا۔ مجھے بھی اپنے ماضی اور بچپن میں پہنچانے کا اور ماہ رمضان کے ساتھ منسلک کچھ روائتی چیزوں کا جو معدوم ہوگئی ہیں کے لکھوانے کا ثواب بھی انہی کے سر ہے۔ “چلو پھر ڈھونڈ لیتے ہیں اسی نادان بچپن کو”۔

ویسے تو بچپن کی ساری یادیں حسین ہوتی ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ خوش کُن یادوں کا تعلق ماہِ رمضان اور عیدوں سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارے بچپن میں بچوں کو سحری و افطاری کے لوازمات سے زیادہ سحری کے وقت گھرکی چھت پہ باقاعدہ نقارہ (نغارہ) یا ٹین کو نقارے کی طرح بجا کر لوگوں کو اٹھانے اور افطاری کے وقت مساجد میں گولا بجتے دیکھنا اور گولے آ لاگولا وجا، نہ کھاسوں نہ پیسوں کریسوں دعا جیسے نعروں کے بعد چوگلہ سے بجنے والے گھو گو کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔ بچوں کا ہجوم مسجد کلاں کا گولا دیکھنے کے بعد سیدھا مسجد لاٹو فقیر میں گولا بجنے کے منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیئے بغیر کسی تفریق کے دوڑ لگاتا۔ ماہ رمضان میں عید کے لیئے بچوں کے لیے طرح طرح کی نقلی گھڑیاں مارکیٹ میں آ جاتیں اور بچے ساکت سوئیوں والی یہ گھڑیاں پہن کر اتراتے پھرتے تھے۔ پنجیری کا بطور خاص تذکرہ اس لیے ضروری کروں گا کہ بچوں کی پسندیدہ غذا یہی پنجیری ہوتی تھی۔ بچوں کی فرمائش پر ماں یا پھر گھر کی کوئی عورت گندم کے ان چھنے آٹے کو دیسی گھی میں خوب بھونتی اور اس بھنے ہوئے آمیزے میں چینی یا شکر ملا دی جاتی۔اگر معاشی طاقت اجازت دیتی تو اس پنجیری میں بادام، کھوپرا، سونف، الائچی ملائی جاتی۔ بچے اس پنجیری کو اخبار ی کاغذ پر ڈال کر گلی محلے میں دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کھانے کے لیے نکل جاتے اور عیاشی کرنے کے ساتھ ساتھ شیخیاں بکھیرتے کہ یار اج میڈا مخبی روزہ ہئی۔ یار میں عید کولوں پہلے چاچے یٰسین نائی کولوں امیتابھ آلی کٹ بنڑویساں۔ محلے کے دکانداروں سے بھی یہ آٹے والی پنجیری چونی یا اٹھنی میں اچھی خاصی مل جاتی تھی۔

عید پراگر گھروں میں تیار کردہ میدے کی موٹی سیویّاں نہ ہوتیں تو عید ادھوری، اور خوشی مجبوری سمجھی جاتی۔ان سیویوں میں خلوص کی مٹھاس اور محبتوں کا ذائقہ شامل ہوتا تھا۔ ہمارے محلے میں چچا واحد بخش مستری کے گھر سیویوں کے لیئے خصوصی طور پرلکڑی کی بنی گھوڑی تھی۔ جہاں محلے کی خواتین اپنے اپنے گھروں سے ایک خاص طریقے سے میدے کو پانی یا گھی میں گوندھ کر اور سخت پیڑے بنا کر اور تھوڑے سے سرسوں کے تیل میں ڈبو کر ایک تھال میں لے کر چچا واحد بخش مستری مرحوم کے گھر لے جاتیں۔ جہاں انکی زوجہ بڑی خوشدلی سے ان خواتین کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ بیٹھنے کے لیئے پیڑی اور سویاں رکھنے کے لیئے صحن میں ایک خصوصی چارپائی بھی ڈال دیتی۔ خواتین گھوڑی کے چھیدوں والے پیالے میں پیڑا ڈالتیں اور ہم جیسے بچے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس پانچ، چھ فٹ لمبے لکڑی کے دستے کو زور سے نیچے کی طرف کھینچتے۔ گھوڑی کے چھیدوں والے پیالے سے تقریبا دو فٹ لمبائی کے خوبصورت لچھے نکلتے جاتے۔ ان لچھوں کو خواتین بڑے آرام کے ساتھ اپنی انگلیوں سے کاٹ کر چارپائی پر پڑی سفید چادر پر انگریزی کے حرف Uکی شکل میں رکھ دیتیں۔جب سیویّاں سورج کی تپش میں کچھ خشک ہو جاتیں تو خواتین بڑے آرام کے ساتھ ان سیویوں کے لچھوں کو اٹھا کر ایک لمبی لکڑی پر بالکل ایسے لٹکاتیں جیسے کلاں بازار میں موجود پھولوں والے ہار کو ایک لکڑی پہ لٹکاتے ہیں۔ بچے دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ وہ لکڑی سیدھی اٹھا کر متعلقہ گھر میں پہنچانے کا کام کرتے۔سیویّاں جب مکمل سوکھ جاتیں، تب اس لکڑی کو نکالا جاتا۔ عید سے تین چار روز پہلے دو یاتین سیویوں کے لچھے چھینبے والی قندوری میں لپٹے ایک چنگیر میں رکھ کر بچوں کے ہاتھوں قریبی رشتہ داروں ‘ محلے داروں کو نہایت ہی اہتمام کے ساتھ بطور عیدی بھیجی جاتیں۔ شادی شدہ بیٹیوں کے گھروں میں مائیں کچھ زیادہ لچھے بمعہ جوڑا، چنی، چوڑیاں بطور عیدی بھیجتیں۔
عید والے دن صبح صبح خواتین ان سیویوں کو پہلے پانی میں ابالتیں اور پھر دودھ میں چینی یا شکر، تھوڑا سا مکھن یا پھر دیسی گھی اور خاص کر چھوارے ضرور ڈالتیں جس سے ایک معطر خوشبو ان سیویوں میں پھیل جاتی۔سیویوں کے ساتھ چھوارے بھی سب گھر والے خوب مزے سے کھاتے۔ ان گھوڑی والی سویوں کے علاوہ کچھ بزرگ خواتین گوندھے ہوئے میدے کی چھوٹی چھوٹی گلاب جامن جتنی گولیاں بنا کر مٹی کے گھڑے یا مٹکے کے پیندے پر ان کو اپنی انگلیوں کی پوروں کی مدد سے بیلنے کی طرح مسل کر باریک اور بل دار سویاں تیار کرتیں۔ جنہیں عرف عام میں مٹکے آلے سویاں کہا جاتا تھا، جن کا اپنا ایک علیحدہ سواد ہوتا تھا۔

بچپن میں عید والے دن نئے کپڑے پہن کر گلی محلے میں لگائی کئیں چنجیکلیوں، پینگوں اور چڈولوں سے لطف اندوز ہونا، سلکی کاغذ کی بنی رنگین عینکیں پہننا، چاچے عبدو یا چاچے کریمو سے ومٹو والی بوتلیں پینا، جیبوں میں شور مچاتے عیدی والے سکے، گولک میں عیدی جمع کرنا۔۔ اے بچپن ! بتا تو کہاں کھو گیا ہے؟۔۔ یا کہہ دے کہ اب تو بڑا ہو گیا ہے۔۔۔ بچپن وہ قیمتی دور جو بے انتہامعصومیت،آنکھوں میں جگمگاہٹ، لبوں پہ مسکراہٹ،،ذہنوں میں شرارت اوردلوں میں بے خوفی کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔جہاں بے پناہ خوشیاں صرف اس سے مشروط ہوتی ہیں کہ میری کاغذ کی کشتی پانی میں دور تک گئی یا پھر یہ کہ چھپن چھپائی میں سب سے آخر میں میں پکڑا جاتا ہوں اور دنیا کا سب سے بڑا غم یہ کہ عیدی کے پیسے آخر اتنی جلدی کیوں ختم ہو جاتے ہیں۔بچپن کی یہ حسین یادیں ہر لمحہ انسان کے ساتھ رہتی ہیں۔ پھول پر بیٹھی ہوئی ننھی تتلی، بدلی سے جھانکتے ”چندا ماما“،نیلے آسمان پر مختلف شکلوں میں ڈھلتے دودھیا بادل اور برستا ابراس نٹ کھٹ بچپن کو بھولنے نہیں دیتا۔

میری طرح کیا آپ بھی یہی سوچتے ہیں؟ کہ کیوں اب گھروں میں دودھ والی میدے کی سویاں، مسی روٹیاں اور آٹے کی پنجیری تیارنہیں کی جاتی؟ سچ بتائیے گا کہ سونف اور گری باداموں والاگڑ کب کھایا تھا؟ گنے کے رس کی کھیر کب حلق میں اتاری تھی؟ گھی میں بنائی ہوئی مونگ اور چنے کی دال کا ”دابڑا“ کب چکھا تھا؟ اپنے ہاتھوں سے ڈڈوں کا تراڑا کب لگایا تھا؟ گاجروں کی گڑ میں بنی جگر ٹھار کب کھائی تھی؟ لاڈو لاڈو کا آخری بار جلوس کب دیکھا تھا؟ چدھے، گلی ڈنڈا، مارکٹائی، کوکلے چھپاکی، پکڑن پکڑائی آخری بار کب کھیلی تھی۔ ہاں خاص کر بھینس کی ”بوہلی“ کھائے کتنا عرصہ بیت گیا ہے؟ پتا نہیں آج کے نوجوانوں سے کتنے ”بوہلی“ کے نام سے واقف ہیں؟ یہ کھیل اور غذائیں ہمیں اس لیے بھی یاد نہیں کہ ان کے ذکر سے ہی پینڈو پن جھلکتا ہے۔ شہری لگنے کے لیے پیزا، برگر، شوارما، سینڈوچ، سلائس،نگٹس کھانا اور کینڈی کریش، پب جی، مائن کرافٹ جیسی گیمیں کھیلنا اور ان کے نام آنا بہت ضروری ہیں۔