ڈیرہ اسماعیل خان سے اسدعباس عنوان کالم
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
تحریر : وجاہت علی عمرانی
کرونا کے طفیل لاک ڈاؤن نے ہمیں بتا دیا کہ ہم دھوکے کی زندگی گزار رہے تھے اصل زندگی تو یہی ہے۔ درحقیقت کرونا نے ہمیں ہمارے اصل سے ملا دیا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر کوئی اپنے گھر میں موجود ہے۔ پہلے کی طرح صرف صبح و رات نہیں بلکہ ماضی کی طرح شام بھی پھر سے واپس آگئی ہے۔ بچے پھر سے نانی، دادی سے کہانیاں سننے لگے ہیں۔ ایک بار پھر گھروں میں پتنگ اڑانا، لڈو، کیرم بورڈ، سانپ سیڑھی، پٹھو گرم جیسے کھیل کھیلے جانے لگے ہیں، بچیاں گڈے گڈی کی شادی میں خود کو مصروف رکھے ہوئی ہیں۔ جن سے ہم اپنی مصروفیت کی وجہ سے دور ہو گے تھے۔ اکٹھے بیٹھنے کا ماحول ختم ہو گیا تھا ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے سب اپنی اپنی مصروفیت میں گم تھے۔ در حقیقت قدرت نے ہمیں اپنے اصل کی طرف واپس بھیج دیا ہے پہلے بچپن میں کیسے راتوں کو چھت پر لیٹ کر ستاروں کو گنا کرتے تھے۔ کون سا ستارہ کتنا زیادہ چمکدار ہے، کون سا کم چمکتا ہے، سب پر بحث ہوتی تھی۔ کہانیوں کا دور چلتا تھا اک الگ ہی لطف تھا ان سب چیزوں کاجنھیں ہم بھول گئے تھے اور اک مصنوعی زندگی گزار رہے تھے۔ گویا قدرت نے ایک وبائی مرض کی صورت میں انسانوں کو سبق سکھانے کے ساتھ ماحول کو سانس لینے کا بھی موقع فراہم کیا۔ کیونکہ انسان تو درختوں کی بے دریغ کٹائی، گاڑیوں کے بے تحاشا استعمال، اور مختلف اقسام کی آلودگی پھیلا کر اپنا دشمن آپ ہی بنا ہوا ہے۔
عشروں بعد پہلی دفعہ یہ دل فریب منظر دیکھنے کو ملا کہ محلے کی مختلف چھتوں پر بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین ماہِ رمضان کا چاند دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ یقین کریں ایسا لگتا تھا کہ ماہِ رمضان المبارک کا نہیں بلکہ عید کا چاند دیکھنے آئے ہوئے ہوں۔ بڑے عرصے بعد لوگوں نے روایتی طور پر چاند نظر آنے کے بعد بجائے جانے والوں گولوں کو آسمان کی طرف جاتا اور بجتا دیکھا۔ ورنہ پہلے تو صرف گولے کی آواز پر ہی گزارہ کرتے تھے۔
یہ تو بھلا ہو لاک ڈاؤن کا کہ اس نے ایک بار پھر لوگوں کو ماضی کی روایت کی طرف لے آیا۔ ورنہ ماہِ رمضان تو کیا لوگوں کو عید کا چاند دیکھنے کا شوق ہی نہیں رہا۔ چاند دیکھنے کے لیے نہ لڑکے نہ لڑکیاں، نہ مرد نہ عورتیں اور بچے اس سے پہلے نہ دیواروں پر چڑھتے تھے اور نہ اونچے مکانوں کی چھتوں پر۔ بس شام کے بعد ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے اور چاند کا مژدہ سننے کے لیے بیتابی سے چینل بدلتے رہتے۔ کیونکہ ہم نے چاند دیکھنے کا اہتمام صرف رویت ہلال کمیٹیوں کے مولویوں کے سپرد کر دیا۔
لیکن آج سے اٹھارہ بیس برس پہلے چاند دیکھنے کے شوق اور اہتمام کا عالم ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ شام سے پہلے اونچے مکانوں کی چھتیں آباد ہونی شروع ہو جاتیں۔ چاند دیکھنے کے شوق میں لڑکے، لڑکیاں، عورتیں اور مرد اپنے اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ جاتے اور پھر آسمان پہ چاند کی تلاش شروع ہو جاتی۔ اگر خوش قسمتی سے باریک سا چاند اپنی جھلک دکھا دیتا تو فضا میں شور اور نعروں کی صدا گونجتی اور چھتوں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ چھتوں ہی سے ایک دوسرے کو اشاروں سے چاند کی اصل جگہ دکھاتے۔ خواتین کی طرف سے چھتوں پر سے ہی پڑوس کی خالاؤں، ممانیوں، بھابھیوں اور چچیوں کو سلام و مبارک کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔
بہر حال آسمان کی وسعتوں پر چمکنے والا یہ چاند صرف چاندہی نہیں جو ماہِ نو کا پیغام دیتا ہے بلکہ کبھی روٹی بن کر کسی کی بھوک بڑھاتا ہے تو کہیں چمکتے کھنکتے سکوں میں خود کو ڈھال کر سرکتا جاتا ہے۔ ماما بن کر کہیں بچے اور اس کی ماں کو ننہیال و میکے کی یاد دلاتا ہے۔ کہیں کہیں تو بے رنگ ہاتھوں میں اپنی پہلی حنائی کسک چھوڑ جاتا ہے جو عمر بھر تڑپاتی رہتی ہے۔ کبھی اس کی چاندنی کسی کو خوشیوں کی کرن دان کرتی ہے تو کہیں اس کی ایک ایک کرن دل میں نشتر بن کر اترتی ہے. شاید اسی وجہ سے پروین شاکر نے کہا تھا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر