• Sun. Jun 29th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

کرونا لاک ڈاؤن زحمت میں رحمت (بلیسنگ ان ڈسگائس) تحریر عنبرین مشتاق بھٹی

Apr 26, 2020

بھئی مجھے تو یہ لاک ڈاؤن، زحمت میں رحمت (بلیسنگ ان ڈیسگا‏ئیس ) جیسا لگ رہا ہے میں نے اس لاک ڈاؤن کو قید و بند کی طرح محسوس ہی نہیں کیا بلکہ شلیف میں رکھی چند کتابوں کا مطالعہ کیا جو عرصہ دراز سے پڑی میرا منہ چڑھا رہی تھیں اور کھولے جانے کی منتظر تھیں۔ بے حد مصروفیت اور بے توجہگی کی وجہ سے ان پر دھول مٹی کی اچھی خاصی تہہ جم چکی تھی جوکہ میں نے بھرپور نزاکت سے صاف کی اور صفحہ صفحہ کر کے حرف حرف دل میں اتار کر پڑھ ڈالی۔ معاملہ صرف پڑھنے تک نہیں رہا بلکہ جو کچھ سیکھا اس کو لفظ لفظ کرکے قلم کی نوک سے کاغذ پر اتارنا چاہا، لیکن کاغذ کی جگہ لیپ ٹاپ اور قلم کی جگہ انگلیاں کی پیڈ پر بجا بجا کراپنا لکھنے کا شوق پورا کیا۔ ابھی جب سن رہی ہوں کہ لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پریشانی اور انزائٹی کا شکار ہو رہے ہیں اور ماہر نفسایات کے منت ترلے کررہے ہیں۔ میڈیکل ‎سٹورز سے لیگزوٹانل اور اینٹی ڈیپرسنٹ خرید خرید کر ان کی چاندی اور اپنی صحت کو مذید خراب کر رہے توسوچا اس پر لکھوں۔
ذہنی دباؤ اور بے چینی ( ڈیپریشن اور انزائٹی) کا تعلق ہمارے دماغ کی منفی سوچ سے ہے جب بھی ہم کسی سوچ کے عمل (تھاپ پراسس ) کے دوران کسی بھی منفی سوچ کو دماغ میں جگہ دیتے ہیں تو یہ منفی سوچ ہمارے دماغ کو نہ صرف مزید مثبت سوچنے سے روکتی ہے بلکہ ہمارے ذہنی سکون کے توازن (ایکولیبریوم ) کو متاثر کرتی ہے اور ہماری سوچ کے عمل کو نیگیٹو بنا دیتی ہے جس سے ہم پریشانی محسوس کرتے ہیں۔ یہ پریشانی ہمارے دماغ کو ٹریگر کرتی ہے جس کے بعد مثبت میٹا عقا‏ئد ( پوزیٹو میٹا بلیوز ) اور منفی میٹا عقائد (نیگیٹو میٹا بلیوز) متحرک ہوتے ہیں ان بلیوز کے متحرک ہوتے ہی پریشانی جنم لیتی ہے لیکن ہمارے پوزیٹو میٹا بلیوز اس پریشانی کو ایموشنلی ریلیز کر دیتے ہیں اور اس عمل میں ہم اپنی پریشانی رو کر اپنی بات کسی سے کہہ کر،غصہ کر کے، نکال دیتے ہیں یہ عمل ہمارا کیتھارس کر کے ہمیں نارمل کر دیتا ہے اور اس طرح ڈپریشن ختم ہوتا ہے ۔ لیکن اگر ہماری منفی میٹا بلیوز زیادہ متحرک ہوں مثلا ہم بہت زیادہ منفی سوچوں کے دباؤ میں ہوں اور اس صورت میں ان کو کوئی جذباتی اخراج (ایموشنل ریلیز) نہ ملے تو یہ عمل پریشانی کو شدید (انٹینسیفائیڈ ) کر دیتا ہے اور ہم بے چینی اور خود کو شدید ذہنی دباؤ میں محسوس کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد ہمیں سکون کے لیے میڈیسن لینی پڑتی ہیں جو کہ اس پریشانی کو تو ختم کرنے سے قاصر ہیں لیکن وقتی طور پر ہمارے منفی میٹا بلیوز کے عمل کو سست (تھاٹ کنٹرول) کر کے ہمیں وقتی ذہنی سکون دیتی ہیں۔
اب اگر اسی پراسس کوہم لاک ڈاؤن کی مد میں دیکھیں تو اس وقت انسان کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک پرندے کی طرح قید سے نکلنے کے لـیے پھڑپھڑا رہا ہے وجہ صرف یہ کہ اس نے لاک ڈاؤن کو بہت منفی انداز میں محسوس کرنا شروع کر دیا ہے ۔ ہم لاک ڈاؤن کو اپنے لیے عذاب ، مصیبت اور پریشانی کی صورت میں لے رہے ہیں ۔ جب کہ سب کو پتہ ہے کہ لاک ڈاؤن ہماری بہتری کے لیے ہے یہ کوئی سزا نہیں ہے لیکن چونکہ ہم ایک روٹین اور مشینی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں اس لیے ہمیں لاک ڈاؤن میں رہنا مشکل لگ رہا ہے لاک ڈاؤن نے جیسے ہی ہماری روٹین کو متاثر کیا ہماری دماغ کی ((ایکولیبریوم) متاثر ہوے اور اس کے بعد منفی اور مثبت عقائد نے اس پراسس کو شدید کیا اور اس کی وجہ سے ہم ڈیپرشن اور انزائٹی محسوس کرنے لگے ۔ لیکن ہمارے پریشان ہونے سے کرونا جیسی وبا اس دنیا سے نہیں جائے گی پریشانی اس کا حل نہیں ہے ہاں احتیاط سے ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں اور لاک ڈاؤن ہمیں وہ احتیاط سکھانے کی بنیادی اکیڈمی ہے ۔ اب ہمیں ضرورت اس بات کی ہے یہ ہم اس بے چینی ( انزائٹی ) کو کیسے کنٹرول تھاٹ کے ذریعے کنٹرول کریں جس کا علاج صرف ماہر نفسیات کے پاس یا میڈیسن میں نہیں ہے بلکہ ہم خود بھی اپنے تھاٹ پراسس کو کنٹرول کر سکتے ہیں اس کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم خطرناک قسم کی نیوز اور ویوز سے پرہیز کریں تاکہ ہمیں کچھ افاقہ ہو ۔ اور اپنے دماغ کو ان کاموں میں لگائیں جس سے ہم خود کو اس ڈیپریشن کی اذیت سے نکال سکیں۔
ذرا سوچیے اس لاک ڈاؤن کی بدولت ہماری مشینی زندگی میں ایک ٹھراؤ پیدا ہوا ہے اس ٹھہراؤ کو مثبت اندار میں لیں اس بریک نے ہمیں ایک ویک اپ کال دی ہے اور ہمیں زندگی کے ان پہلوں کا جائزہ لینے کاموقع ملا ہے جن کو ہم عرصہ دراز سے نظرانداز کرکے بیٹھے تھے ہمیں اپنےامور کو ازسرنو سوچنے اور اپنی اصلاح کرنے نفسانفسی سے نکلنے کا موقع ملا ہے ۔ کرونا سے پہلے ہم وہی دفتر وہی لوگ وہی کام ایک جیسے روز و شب گزار رہے تھے فیملی لائف نظرانداز کی ہوئی تھی، شام کی چائے ہماری زندگیوں سے ختم ہو چکی تھی بہت سے ایسے دوست جو ہمارے دماغ سے محو ہو گـئے تھے جن کو عرصہ دراز سے اور وقت کی قلت کی وجہ سے رابطہ نہ کر سکے اور بہت سے ایسے کام جو التوا میں پڑے تھے یہ لاک ڈاؤن بلیسنگ ہے ان ادھورے کاموں کو کریں اپنا وقت تخلیقی کاموں میں گذاریں کسی بھی منفی سوچ کو دماغ میں جگہ نہ دیں بلکہ سماجی ذمہ داریوں میں مثبت طریقے سے اپنا اپنا حصہ ڈالیں ۔
اور ابھی رمضان مبارک آ رہا ہے کتنے ہی رمضان ہماری زندگی میں ایسے گزرے ہیں جو ہماری بے ہنگم روٹین کی نذر ہوئے اور ہم رمضان کا حق ادا نہ کرسکے۔ لیکن یہ رمضان ہمارے لاک ڈاؤن کے ٹائم میں آیا ہے جو کہ ایک نعمت سے کم نہیں ۔ ہم اس کا بھرپور طریقے سے استقبال کر کے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں مساجد بند ہیں تو کیا ہوا اپنے گھروں کو عبادت گاہ بنائیں تعلیم اور درس گاہیں بند ہیں تو کیا ہوا قرآن پاک، حدیث اور مذہبی کتابیں موجود ہیں ان کو کھولیں پڑھیں زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کو دیں عبادت کریں اور نیکیاں سمیٹیں انشاء اللہ اس رمضان مبارک کے آمد کے صدقے اور برکتوں کے دروازے کھلنے سے اللہ ہمیں اس دنیاوی عذاب (کرونا) سے جلد از جلد نجات دلا‏ئیں۔ آمین۔