• Sun. Jun 29th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

ڈیرہ اسماعیل خان سے اسدعباس نمائندہ نیوز ٹائم پاپڑ کرارے تحریر: وجاہت علی عمرانی

May 8, 2020

سوچ رہا ہوں کہ زندگی کے سفر پر چلتے ہوئے ماضی کو یاد کرنا گویا کلیجے پر ضرب لگانے والی بات ہے۔ وہ ماضی جوڈیرہ اسماعیل خان کے گلی کوچوں اور گھروں کی بے ہنگم ترقی و بھیڑ میں روپوش ہوگیا۔ اگر دیکھا جائے توماضی کی اپنی خصوصیات تھیں اورآج کے دور کی اپنی خصوصیات۔ ہر دور کے اپنے تقاضے اور اپنے ثمرات ہوتے ہیں۔ مگر مجموعی لحاظ سے دیکھا جائے تو آج کا انسان جس دوڑ اور حریصانہ زندگی میں پڑا ہے اور اس کے نتیجے میں بے سکونی اور کئی امراض کا شکار ہے، ماضی میں ا س سے بچا ہوا تھا، بس سادہ سی زندگی تھی۔ تب گھر کے صحن، شہر کی گلیاں کچی اور کھردریاں ضرور تھیں مگر لوگوں کے دل کھر درے نہیں تھے۔

آپ نے کبھی کسی عمر رسیدہ و بزرگ شخصیت کی تجربہ کار آنکھوں میں کسی معصوم بچے کو مسکراتے جھانکتے دیکھا ہے؟ اگر نہیں۔ تو زرہ اپنے کسی بزرگ سے انکی ماں کا اور ماں کے ہاتھ کے ذائقے کا اور ان کے بنائے کھانوں کا تذکرہ چھیڑ کر دیکھیں۔ اتنی عمر گذرنے کے بعد بھی آپکو ان بزرگوں کی باتوں میں اپنی ماں کے لیے بچوں کی سی معصوم محبت صاف دکھائی دے گی۔ حسرت بھرے انداز میں ہائے وہ میری ماں کے ہاتھ کے ذائقے انکے ساتھ ہی چلے گئے کا جملہ ضرور سنائی دے گا۔ یہ سچ ہے مائیں چلی جاتی ہیں، ان کی خوشبوئیں، ان کے ذائقے آخری سانس تک ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ جب تک ہم زندہ ہیں،اس لذت کے تصور سے باہر نہیں آ سکتے۔ آئیں زرہ آنکھیں بند کر کے ماضی کے منظر میں کھو جائیں۔ کچے صحن میں پانی کے چھڑکاؤ کی سوندھی خوشبو، ایک طرف چارپائی یا پیڑی پربیٹھ کر ساگ صاف کرتی ہوئی ماں یا دادی، ایک کونے میں گھڑونچی پہ رکھے گھڑے اور گھڑوں پہ رکھے گلاس و کٹورے، ان پہ لپٹے موتیا کے ہار۔ لکڑی کے چولہے پر رکھا روٹیاں پکانے وال کُپ یا توا۔ چارسو پھیلی “بھونی کی خوشبو” پینٹھے کا حلوہ یا بوہلی کھاتے آپ اور میں۔دھنیا کو دوری میں کوٹتی بہن۔ گھوڑی پہ ٹھہرے والد کے سائیکل کو قینچی سٹائل میں چلاتے بچے۔ گڑیوں سے کھیلتی بہنیں۔ ٹھنڈے پانی کے نلکے کو ہاتھوں سے گھیڑتے آپ اور میں۔۔ یادِ ماضی۔۔

بہرحال ماضی کی کچھ ایسی چیزیں جو ہم اپنے بچپن میں بڑے مزے اور چاہ سے کھاتے تھے۔ جو آج کل یا تو ختم ہوگئی ہیں یا کم ہی ملتی ہیں۔ تاہم ان کے ذکر سے ضرور لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ تقریبا مہینے میں ایک دفعہ تو ضرور ہر گھر میں “گھنگڑیاں ” بنتی تھیں، بلکہ محلے میں بانٹی بھی جاتی تھیں اور بچے پرجوش ہو کر گلی میں ہوکا لگاتے “بال بلوڑے، گھنگڑیاں گھدی ونجو۔ گڑ میں پکنے والا چاولوں کا “بھت” تو اپنی مثال آپ ہوتا۔ کوئی ایسا گھر نہیں تھا جہاں “پورنیاں ” نہ بنتی ہوں۔ خاص موقعوں پر تو لوگ “لپی” کے علاوہ کوئی چیز بھی نہیں بناتے تھے۔ بارش کے دن تو ہر گھر میں فرض سمجھ کر “وشلی” بیسن کی روٹی جس میں پیازو انار دانہ ڈلا ہوتا تھا ضرور پکتی۔ دال اور پینٹھے کا حلوہ، باجرے کی میٹھی روٹی اور ڈودھی والا حلوہ و پڑیاں تو من و سلویٰ کا درجہ رکھتی تھیں۔ گلی محلے کی ہر دکان سے بچے بڑے ذوق و شوق سے پاپڑی، گلدھانڑی، مرونڈے، ٹانگری، بھور، مٹھے ٹکڑے، ڈولی روٹی، بوندی، آلو موٹھ لیتے نظر آتے اور یہ سب چیزیں خالص اشیاء سے ہی تیار کی جاتی تھیں اسی وجہ سے بچے بھی صحت مند ہوتے تھے۔ پاپڑ کرارے والے کا تو ہر بچہ انتظار میں ہوتا کہ کب چاچا پاپڑ والا آئے گا اور پاپڑ لیں گے۔ چمن چوک یا اسکے اردگرد علاقے کا ایک بابا دینو جو دوپہر کے بعد ایک ہتھ ریڑھی پر ترتیب سے رکھے بالکل تازہ پاپڑ لاتا تھا۔ جب اسکے آواز گونجتی “پاپڑ کرارے” تو ہر بچہ اپنے گھر کے ہر فرد کے لیئے ایک ایک پاپڑ خریدنے دوڑ کے آجاتا۔ میٹھے لچھے والا چاچا جب بانس کے اوپر رنگ برنگی لچھا لپیٹے ہاتھ کی گھنٹی بجاتا تو بچے فورا اس کے پاس پہنچ جاتے، چاچا اپنے ہاتھوں کی مہارت سے لچھے کو کھینچ کر چڑیا، گھڑی بنا کر دیتا۔ ہر محلے اور گلی میں ایک نہ ایک دکان یا پھر ایسا گھر ہوتا تھا جہاں سے “فالودہ ” اور “وڑیاں ” ملتی تھیں، جو خواتین بڑی محنت سے تیار کرتیں اور باقاعدہ فروخت کرتیں۔ ان خواتین کی پہچان بھی یہی فالودے والی یا وڑیاں والی ہوتا تھا۔

تقریبا گھروں میں تنوریاں موجود ہوتیں جہاں خواتین خود روٹیاں پکاتی تھیں۔ مختلف پکوانوں کے لیئے گھروں میں مختلف چولہے استعمال کئے جاتے، کسی کے لیئے کوئلوں کی انگھیٹی، کسی کے لیئے لکڑیوں والا چولہا، کسی پکوان کے لیئے خصوصی “گوئے” جلائے جاتے۔ اسی طرح ہانڈی بھی پکوان کے مطابق ہوتی۔ کبھی مٹی کی کٹوی، کبھی پیتل اور کبھی جستی دیگچی استعمال کی جاتی، اسی وجہ سے تو ہر چیز کا نرالا ہی ذائقہ ہوتا۔ خواتین لازمی طور پر موسمی سبزیاں،، شلجم، گھوبی وغیرہ سُکھاتی رہتیں تاکہ بعدمیں انہیں استعمال کیا جا سکے۔ ان میں ساگ سرفہرست ہوتایہ خشک ساگ عام طور سے چنے کی دال ڈال کر بنایا جاتا اور اخیر قسم کی لذت اس میں پوشیدہ ہوتی۔ گوشت سکھانے کا بھی اچھا خاصا رواج تھا۔ بڑی سوئی کی مدد سے انہیں ہار کی مانند سی لیا جاتا، جنہیں تلاریں کہتے تھے۔ دھڑیوں کے حساب سے گاجریں منگوا کر گڑ والی جگر ٹھار بنائی جاتی۔

تقریبا ہر گھر میں خصوصی طور پر سری اور پائے کا بڑادیگچہ بنتا۔سری، پائے کے سالن کے ڈونگے قریبی عزیزوں کے گھر بھی بھیجے جاتے۔ اتنا گاڑھا شوربہ جو انگلیوں کو لگے تو وہ آپس میں چپکنے لگ جائیں۔ مغز کا الگ سالن بنایا جاتا۔ ہمارے علاقے میں چاچا کدی، استاد صادق، استاد رمضان کی دکانیں سری، پائے اور اوجھڑی کے لئے مشہور تھیں۔ کمال کی لذت ہاتھ میں تھی۔ بچپن میں ان کی دکانوں سے صبح کو جا کر سالن لے آتا تھا۔جس کے اوپر ادرک اور سبز دھنیا وغیرہ کا چھڑکاؤ ہوتا تھا۔

آج کل تو ہر شے تیار ڈبوں میں بند میسر ہے۔ اس وقت خواتین تو نمک پر بھی سمجھوتہ نہ کرتیں۔ بازار سے کھیوڑہ کا خالص نمک منگوایا جاتا اسے دھو کر دھوپ میں سکھاتیں۔ پھر اپنے ہاتھوں سے ہاون دستے یا پھر چکی سے پسواتیں۔ سرخ مرچ بھی ایسے ہی دھو کر سکھائی جاتی پھر اسے پسوایا جاتا۔مکسر، گرائنڈر کے زریعے نہٰں بلکہ دوری ڈنڈا میں اپنے ہاتھوں سے کوٹتیں۔

کبھی ہم نے سوچا! کیسی عظیم ہیں ہماری مائیں جنھوں نے اپنی ساری محبت اپنے کھانوں میں گوندھ دی۔ گھول دی۔ جو مدتیں گزرنے کے بعد بھی ہماے رگ وپے میں لہو بن کے دوڑ رھی ھے۔ اس محبت کے رنگ، زمانے گذرنے کے بعد بھی ماند نہیں پڑتے بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اور نکھرتے جاتے ہیں اور ماں کے ہاتھ سے بنے بچپن کے اولین ذائقے نوکِ زباں پر بڑھاپے تک تازہ ہی رہتے ہیں۔