• Sun. Jun 29th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

سفارش،خارش اوربارش“ تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

Aug 1, 2021

کئی لوگوں پر ہمیشہ نعمتوں کی بارش ہوتی رہتی ہے توچند لوگوں کے ہاتھوں پر ہمیشہ خارش ہوتی رہتی ہے مگر وہ خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔اپنی تمام تر ناکامیوں کی وجہ سفارش نہ ہونا سمجھتے اوربتاتے ہیں وہ یہ رازجان نہ پاتے ہیں کہ جو لوگ خود اپنی سفارش نہیں بن سکتے،اُن کو کسی کی سفارش کبھی کام نہیں دے سکتی۔ان کی زندگی اس شعر کی عملی تصویر ہوتی ہے -:
دھوپ نے گزارش کی
ایک بوند بارش کی
سفارش کی خارش بہت خطرناک ہوتی ہے۔ساری زندگی بندے کے اندر آگ لگائے رکھتی ہے۔کسی زمانے میں جھنگ کے ایک مشہور حکیم بسوں میں خارش ختم کرنے والی دوائی بیچا کرتے تھے بقول اُن کے وہ دوائی اتنی اکسیر تھی کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہونے والی خارش اور بارش کی زیادتی کی وجہ سے ہونے والی خارش، دونوں کاشافی علاج تھی لیکن سفارش کی خارش کے بارے میں وہ حکیم صاحب بھی خاموش رہتے تھے۔اس سے میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سفارش کی خارش کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔
ہمارے ہاں کاایک محاورہ ہے کہ خواہش اور خارش کے مارے ہوئے انسان کا حال اورانجام ہمیشہ بُرا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں سفارش کے متلاشی شخص کا حال بھی کبھی اچھا نہیں ہوتا۔جیسے بے وقت کی بارش کھڑی فصلوں کو تباہ کردیتی ہے ایسے ہی سفارش کی بے جا خارش بہت سے لوگوں کو اپنے قدموں پہ کھڑا ہی نہیں ہونے دیتی۔ہمارے ہاں گرمی کا موسم بڑا ظالم ہوتا ہے مگر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ بعض لوگ بارش کی دعا زیادہ مانگتے ہیں یا سفارش کی۔آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ ہمارے ہاں بارش نہ ہونے سے لوگ زیادہ پریشان ہوتے ہیں یا سفارش نہ ہونے سے۔ بارش اور سفارش میں بڑا عجیب تعلق ہے بارش نہ ہو تو بھی بیماریاں پھیل جاتی ہیں اوراگربارش زیادہ ہو جائے تو بھی بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس سفارش نہ ہووہ یہی سمجھتے ہیں کہ سفارش کا نہ ہونا بہت بڑی کمزوری ہے جبکہ میراخیال ہے کہ زیادہ سفارشوں کا ہونا بھی انسان کو بہت کمزور کر دیتا ہے۔سفارش کے ساون میں بھیگتے شخص کو یہ حقیقت کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ ساون کے بعد بھادوں بھی آتا ہے۔سفارش کو کلیدِی کامیابی سمجھنے والا شخص در در پھرتا ہے اور ہروقت اپنے صاحبِ استطاعت عزیزواقارب سے یہی گلہ کرتا رہتا ہے -:
میں وہ صحرا جیسے پانی کی ہوس لے ڈوبی
تو وہ بادل جوکبھی ٹوٹ کر برسا ہی نہیں
وہ ہمیشہ حالات کاشاکی رہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہرشخص کو سفارشی میسر ہے سوائے اُس کے۔ اُس کے حالات توکچھ ایسے ہیں -:
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیانہ تھا
غریب کی خارش کو جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں ”کُھرک“ بھی کہا جاتا ہے۔زیادہ خارش کرنے والے کو ”کُھرکی“کہا جاتا ہے۔”کُھرکی“ اور”ٹھرکی“دونوں کو ہمارے معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر ٹھرکی مزے میں ہوتا ہے اور ”کُھرکی“ عذاب میں۔سفارش کا ”کُھرکی“ تو دوسروں کی زندگی بھی عذاب کیئے رکھتا ہے۔
میرے ایک سرکاری ملازم دوست، سرکاری کالونی میں اچھے خاصے گھر میں رہتے ہیں مگرپھر بھی ہروقت عمدہ گھرکے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ایک دن مجھے دبے دبے لفظوں میں کہنے لگے کہ فراز صاحب نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جب وہ سرکاری ملازم تھے تو ابتدائی ایام میں اُن کے پاس کچا مکان تھا۔وہ مزید کہنے لگے بعد میں وہ سفارش کروا کر بہترین رہائش گاہ میں منتقل ہوگئے مگرہمارے جیسے غریبوں کے نصیب میں ایسافراز کہاں۔ہم تو اسی نشیبی کالونی میں زندگی کے باقی دن بھی گزار دیں گے-:
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
ایسے ہی لوگوں کوہمیشہ تقدیر سے یہ گلہ رہتا ہے کہ اُن کے نصیب کی بارشیں کسی اور آنگن میں برستی رہتی ہیں اور اُن کی نسلیں اچھے دنوں کوترستی رہتی ہیں۔
بارش بنجر زمین کو ہرابھرا کردیتی ہے۔ برگ وبارپربہارآجاتی ہے۔انسان اگرسفارش کی خواہش سے نجات پالے تو اُس کے کردار میں نکھارآجاتا ہے۔ اُسے محنت کی عظمت پر اعتبار آجاتا ہے اوراُس کے جسم و جان کو قرارآجاتا ہے۔
(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر، چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں)