ہماری قومی تاریخ بالعموم اوردیہی تاریخ بالخصوص ”ٹھگ“،”سگ“ اور”پگ“ کے ذکر کے بغیرنامکمل بھی ہے اور بے کیف بھی۔ اگرچہ ٹھگ ہمیشہ قابلِ صدحیف رہے ہیں مگر وہ ہماری تاریخ کو رنگین بھی بناتے ہیں اورسنگین بھی۔ سگ بھی دیہات میں ہر گھر کا حصہ ہیں اگرچہ اب شہروں میں بھی امیر لوگ”سگ“ کے بغیرنہیں رہتے ہیں۔ٹھگ نہایت پیشہ ور لیٹرے تھے جواپنے مقصد کے حصول کیلئے کسی بھی حدتک چلے جاتے تھے اب”ٹھگ“ نہیں رہے مگر بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ آج کل ٹھگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اُن کا طریقہ واردات جدید ہوچکاہے اس لیئے آج کل کے ٹھگ کو پکڑنامشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔”سگ“ کی انسان سے اورانسان کی اپنی ”پگ“ سے وفاداری کی تاریخ بہت پرانی ہے۔”ٹھگ“ بھی زمانہ قدیم سے اپنی ایک شناخت رکھتا ہے۔
اصحاب کہف کا ”سگ“امرہوچکا ہے تو”سگِ“ لیلیٰ بھی ہمارے ادب میں ایک لافانی کردار ہے۔”پگ“ والا چوہدری بھی ہمارے افسانوں اورڈراموں کے طفیل اساطیری حیثیت کاحامل ہے اگرچہ میرے ایک کامریڈ ٹائپ دوست کا کہنا ہے کہ لیلیٰ کا ”سگ“ اور چوہدری کی ”پگ“ بہت بڑے”ٹھگ“رہے ہیں اور آج کے دور میں بھی لیلیٰ کا کتابہت سے انسانوں سے بہتر ہے تو چوہدری کی ”پگ“،اگرچہ نظرنہ بھی آئے، پہلے سے بھی زیادہ نقصان کررہی ہے۔ ہمارے کامریڈیہ بھی کہتے ہیں کہ جب تک یہ قوم لیلیٰ کے ”سگ“ اور چوہدری کی ”پگ“ کی ذہنی غلام بنی رہے گی ترقی کی منزل دور ہی رہے گی اور یہ قوم شکستوں سے چورہی رہے گی۔
ماضی قریب میں کئی لوگ چوہدری کویہ کہہ کرجگانے کی کوشش کرتے تھے کہ اُس کی ”پگ“ کو داغ لگ گیا ہے۔ اُس زمانے میں چوہدری کو ایسے ”ڈیٹرجنٹ“ کی سہولت میسر نہیں تھی جو پکے داغ بھی پیار سے نکال دیتا تھا البتہ اُس دور کا چوہدری اپنی ”پگ“ کو داغ لگانے والے کوسرتا پا داغ دار کرنے کی صلاحیت سے مالامال تھا چوہدری اپنی ”پگ“ بھی بدل سکتاتھا اورایسے اعلان کرنے والے لوگوں کی زبان بندی بھی کرسکتاتھا۔بعض لوگوں کی رگ رگ میں اُن کی ”پگ“ بسی ہوتی ہے توبعض لوگوں کے بارے میں دوسروں کی رائے یہ ہوتی ہے کہ وہ رگ رگ سے ”سگ“ ہیں اور نیرے ”ٹھگ“ ہیں۔
دیہات میں ”سگ“ نہ ہوتو فصل کو”ٹھگ“ پڑ جاتے ہیں اوراونچے شملے والی ”پگ“ نہ ہوتو ناموس کوٹھگی کا خطرہ لاحق رہتا ہے اگرچہ غریب آدمی ”سگ“ اور ”پگ“ جیسے بھی ہوں اُن سے ڈرتارہتا ہے اوراُس کو ہرلحظہ کسی انہونی کا اندیشہ رہتا ہے وہ مگر کسی کو کچھ نہ کہتا ہے چپ چاپ ان گنت اندیشوں کا عذاب سہتا ہے بسااوقات اُس کا لہواُس کی آنکھ سے صورت اشک بہتا ہے مگر ہمارے ہاں معاشرے کا چلن ازل سے یہی رہتا ہے۔نادارکی کئی نسلیں اسی جدوجہدکی نظر ہوجاتی ہیں کہ وہ ”سگوں“کے نرغے سے نکل کر”پگوں“والے حلقے میں شامل ہوسکیں مگرہمارے معاشرتی نظام میں ذات، پات کے سومنات کو توڑنے والا غزنوی شاید ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔
کسی زمانے میں ٹھگوں کی نظرعزت دار آدمی کی”پگ“ پررہتی تھی مگر ہمارے سردارجان سے جاتے تھے ”پگ“ کی آن پر حرف نہیں آنے دیتے تھے۔اُس دور کاسردارقوم کاخادم بھی ہوتاتھا اور ائیڈیل بھی۔ کسی کے سر پر ”پگ“ رکھ دی جاتی تھی تو اُس کا انگ انگ احساس ذمہ داری سے مہکنے لگتا تھا جو پورا معاشرہ بہکنے لگتاتھاتب بھی اُس کے قدم نہیں ڈگمگاتے تھے اُس کو ”پگ“ کی حرمت کے سب فرض نبھاناآتے تھے اب ہماری دنیا بہت بدل گئی ہے بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ پگوں والے ختم ہوگئے ہیں اورہرطرف سگوں والے پھررہے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے کہ صاحبِ پگ کون ہے اور بدترین ٹھگ کون ہے۔
میرے خیال میں ہردور کا بدترین ”سگ“ اور بدترین ”ٹھگ“ انسان کا اپنا نفس ہے۔نفس کا فسانہ سمجھنا ہوتو انتظار حسین کے افسانے کے بغیربات مکمل نہیں ہوتی۔افتخار عارف نے بھی بالکل بجا کہاتھا
شکم کی آگ لیئے پھیر رہی ہے شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہے ہم کیا ہماری ہجرت کیا
فارسی کے ایک شاعر نے کہا تھاکہ”آواز سگاں کم نہ کن رزق گدارا“۔اگرچہ بعض اوقات انسان کو لگتا ہے کہ وہ اُس دور میں زندہ ہے جب پتھر جکڑ دیئے گئے ہیں اور ”سگ“ اور”ٹھگ“ہرسودندانتے پھر رہے ہیں۔
شہر کے ہر گھرمیں چمکتے جگ اوردمکتے مگ نمایاں جگہ پرنظر آتے ہیں اس لیئے شہری گھروں میں عموماًچہرے دمک رہے ہوتے ہیں اور زندگی جگمگ کررہی ہوتی ہے۔ دیہات کے گھرگھرمیں ہروقت ”سگ“،”پگ“ اور”ٹھگ“ کاذکرچل رہاہوتاہے اور ایک ان دیکھا خوف فضاپرطاری رہتاہے۔اللہ پاک سے التجا ہے کہ ہمارے شہر اور دیہات خونخوار سگوں اور ٹھگوں سے پاک ہوجائیں اور صدا جگمگ، جگمگ کرتے رہیں۔آمین۔
(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر، چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں)
سگ، پگ اورٹھگ“ تحریر:ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
