سادہ باتیں:
اللہ تعالیٰ نے انسان کواشرف المخلوقات بنایا اور اسے زندگی گزارنے کے تمام تراصول اور طریقے بھی سیکھائے،دین اسلام تونام ہی ادب واحترام کاہے عربی کا مشہور قول ہے ”الدین کلہ ادب“ دین تو سارے کا سارا ادب ہے۔اگرانسان میں دوسروں کا ادب واحترام ہی باقی نہ رہے،اور وہ بڑے چھوٹے سے بات کرنے کی تمیز بھول جائے توپھر اس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔اخلاق وادب انسانیت کی معراج ہیں،ایک وقت تھا کہ ہمارے گھروں میں والد صاحب کوآتادیکھ کر بیٹیاں اپنے دوپٹے درست کرلیتی تھیں اور بیٹے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے،شوہرجیسے ہی گھرمیں داخل ہوتابیوی کی اولین ترجی ہوتی کہ فوراََ ایسے پانی پلایاجائے اور اگراسے کوئی فوری ضرورت ہے تو پہلے وہ پوری کی جائے۔بزرگوں کے ادب واحترام کا یہ حال تھا کہ گھر میں سب سے پہلے کھانا انہیں دیاجاتاکیونکہ ان سے پہلے کسی اور کا کھانا کھانا بے ادبی تصور ہوتااور ان کے فیصلوں کوحرفِ آخر مانا جاتا۔لوگوں کا اس بات پرکامل یقین تھا کہ ”باادب بانصیب بے ادب بے نصیب“ نواسے رسول،جگرِگوشہ بتول حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ نے ادب کی بہترین مثال بیان فرمائی:انہوں نے فرمایا کہ ”میں اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھ کر اس لیے کھانا نہیں کھاتا کہ کہیں ایسا نہ ہو میں وہ لقمہ کھالوں جس پر میری والدہ کی نظر ہو ا اور ان کی شان میں گستاخی ہوجائے“۔ جہاں تک مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے اورہمارے دادا جی حیات تھے تو گھرمیں کھانابن جانے کے باوجود ہم تب تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک دادا جی کو نہ دے دیاجاتا۔گھرتوگھرمحلے کے بزرگوں کا احترام بھی واجب تصور کیاجاتاتھااور وہ بھی بچوں پرشفقت کرنا اپنافرض سمجھتے تھے ماحول اس حدیث مبارکہ کا مکمل نمونہ تھا،آپ ﷺ کاارشادِ مبارک ہے،”جو شخص اپنے چھوٹوں پرشفقت اور بڑوں کا احترام نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں“۔ایک دن بھائی اور ان کے کچھ دوست گھر کے سامنے سڑک پرکرکٹ کھیل رہے تھے جس سے سڑک پر سے گزرنے والوں کو پریشانی ہورہی تھی اور بھائی لوگوں میں سے بھی کسی کوچوٹ لگنے کااندیشہ تھا،اتنے میں سامنے والے گھر میں رہنے والے چاچا جی کہیں سے نمودار ہوئے،انہوں نے بھائی کے ہاتھ سے بیٹ پکڑ کر سب کی خوب خبرلی ان لڑکوں میں چاچاجی کے اپنے دو بیٹے بھی شامل تھے مگر وہ بزرگ سب کوایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی تھے انہوں نے ان میں سے کسی کوبھی نہیں بخشا،بھائی کو منہ بسورتے گھر میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا کر امی نے پوچھا کہ کیا ہوا کیوں منہ پھولا رکھاہے توجواب میں بھائی نے اپنی ساری داستانِ غم سُنادی امی ان کی بات سُن کر ہنسنے لگیں ابو جو اب تک خاموشی سے ساری بات سن رہے تھے کہنے لگے کہ بہت اچھا کیا اس نے بلکہ میرے خیال میں جوکیا کم کیا اچھا یہ بتاؤ جواب میں تم لوگوں نے کوئی بدتمیزی تو نہیں کی،تو بھائی نے بیساختہ کہا ”ہماری اتنی جرت“ اور ان کے اس جواب پر سب ہنسنے لگے ایسا اکثرہوتارہتاتھا۔وہ دور بڑا ہی سنہرا تھا،محلے کی کوئی لڑکی بغیر دوپٹے کے گھر سے باہر کھڑی ہوتی اور اس پر محلے کی کسی بزرگ عورت یامرد کی نظر پڑجاتی تووہ اسے سرزش کرنا اپنافرض سمجھتے تھے اور جواب میں اس لڑکی کی یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ ”میرا جسم میری مرضی“،بلکہ وہ نظریں جھکائے شرمندہ ہوکرحکم کی تعمیل کرتی،لڑکی کے گھروالے بھی پتہ چلنے پریہ نہیں کہتے تھے کہ آپ کون ہوتے ہیں ہماری بچی کو ڈانٹے والے بلکہ اُلٹا اپنی ہی بیٹی سے کہتے کہ اچھا ہوا مذہب وتہذیب بھی کوئی چیز ہے تمہاری نظر میں یا نہیں۔بزرگوں کی اس ساری ڈانٹ و ڈپٹ کا بھی اپناہی مزہ تھا ان کہ ڈانٹ سے بھی اُن کا پیار جھلکتا تھا۔ہماری نسل کے بچے بھی اُن کے سامنے کم ہی آنکھ اُٹھاتے تھے،یہ تھا ہمارے معاشرے میں بزرگوں کا احترام جو اب گئے وقتوں کی بات ہوگئی ہے ڈر کا یہ عالم تھا کہ استاد کو آتے دیکھ کر راستے کی ایک طرف ایسے کھٹرے ہوجاتے جیسے ہم وہاں ہے ہی نہیں،گلی محلے میں استاد نظر آجاتا توجان پربن آتی،بازار میں استاد یا محلے کے بزرگ کودیکھ کر جان پر بن آتی کہ اگر انہوں نے پوچھ لیا کہ تم ادھر کیسے تو؟ حالانکہ کے جائز کام ہوتا پھر بھی بتاتے ہوئے عجیب سی جھجک محسوس ہوتی، یہ تھا بڑوں کا ادب۔ یہ تو تھی ہماری وقت کی بات اب بات کرلیتے ہیں موجودہ وقت کی،آج اگرباپ بھی بیٹے سے کچھ کہہ دے توجواب ملتاہے ’آپ کو وقت کے تقاضوں کا کیا پتہ ڈیڈ،وقت کے ساتھ چلنا پڑتاہے‘ استاد کا احترام تو ایک طرف اب تو کوئی سکول ہیڈ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔میرے یہ سب لکھنے کی وجہ بھی میرے گھر کہ قریب ایک انگلش میڈیم سکول میں پیش آنے والا واقع بنا۔وہ علاقے کا مشہور سکول ہے۔ہائرایجوکیٹڈسٹاف،صاف ستھرا ماحول،بچوں کے مکمل یونیفام غرض کہ ہر لحاظ سے علاقے کابہترین سکول مانا جاتاہے ہوا کچھ یوں کہ دسویں کلاس کہ بچوں کہ درمیان کسی بات کو لے کر جھگڑا ہوگیااور نوبت ہاتھاپائی تک آگئی اُس وقت تو خیر کچھ دوسرے بچوں نے درمیان میں آکر بچ بچاکروادیا۔مگر لڑائی کرنے والے دونوں فریقین میں سے ایک نے دل میں گرہ بندھ لی اور دوسرے فریق کو سزا دلوانے اور سکول سے انوسٹی گیٹ کروانے کی ٹھان لی۔جس کے لیے اس فریق کے ایک بچے نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ہاتھ پاؤں اپنی ٹائی سے بندھوا کر خود کوسکول کے ٹائلٹ میں بندکروا لیاچھٹی کے بعد جب سارے بچے چلے گئے اور وہ بچہ دیر تک گھر نہ پہنچاتوگھروالوں کوتشویش ہوئی انہوں نے اسے تلاش کرناشروع کردیا کافی تلاش کے بعد جب وہ اس بچے کے ساتھی کے گھر پہنچے تو اس نے منصوبے کے عین مطابق کہا کہ آخری وقت میں میں نے اسے سکول ٹائلٹ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھاجس پر والدین نے سکول انتظامیہ سے رابط کیا اور سکول کھلوایاجب سکول ٹائلٹ کوچیک کیا گیا تو بچے وہاں بے ہوش ملا،شدیدگرمی کاموسم،حبس،پیاس اور گرمی کی شدت کی وجی سے وہ بچہ بے ہوش ہوچکا تھا اسے فوری طبعی امداد دی گئی اور تفشیش کا معاملہ اگلے دن پر رکھ لیا گیا دوسرے دن پرنسپل نے اس بچے کے کلاس ٹیچر سے کہا کہ وہ اس سارے معاملے کی تحقیق کریں اور مجھے بتائیں کہ یہ کس کی شرارت ہے،کلاس ٹیچرنے اسے الگ کمرے میں لے جاکراس بچے سے پوچھا کہ کل اس کے ساتھ وہ حرکت کس نے کی تھی تو اس نے حسبِ منصوبہ دوسرے گروہ کے بچوں کا نام لے دیا،جب دوسرے گروہ کے بچوں کو بُلا کر اس بارے میں سوال کیا گیاتوانہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا مزید تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ یہ سب بے ہوش ہونے والے بچے کا اپنا ہی کارنامہ تھاتو کلاس ٹیچر نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تمہیں اندازہ ہے کہ تمہاری اس حرکت کی وجہ سے تمہیں سکول سے نکالا بھی جاسکتاہے تو وہ بچہ ٹیچر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ ”مجھ پر رعب نہیں ڈالواگر تم ہمیں پڑھاتے ہو تو ہم پر کوئی احسان نہیں کرتے کہ ہم تمہارا رعب برداشت کریں بلکہ یہ نہیں بھولوکہ تمہیں تنخواہ ہمارے دیے ہوئے پیسوں سے ہی ملتی ہے ہماری دی ہوئی فیس سے ہی تمہارے گھر کا چولہاجلتاہے اس لحاظ سے ہم تمہارے نہیں تم ہمارے ملازم ہو“ یہ سارا واقعہ میرے آنکھوں دیکھا اور کانوں سُنا ہے کہنے کو تو یہ ایک ناسمجھ بچے کہ کہے ہوئے چند جملے تھے مگر حقیقت میں معاشرے کے منہ پرایسے تھپڑ تھے جن کے نقوش کبھی نہیں مٹ پائیں گے۔نہ استاد کا ادب نہ عمر کالحاظ۔اور میں ناچاہتے ہوئے بھی اپنے اور اس دور کے بچوں کا موازنہ کرنے لگی۔حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ”جس شخص نے مجھے ایک لفظ سکھایا اُسے حق ہے کہ چاہیے تو مجھے سربازار فروخت کردے“ مگر آج کل کے بچے محلے والے چاچا تو دور سگھے چاچا کی بات سُننا گوارہ نہیں کرتے،اُولاد والدین کی اور بیوی شوہر کی بات سُننے کی روادار نہیں۔اگر کبھی غصے میں ماں باپ نے کچھ کہہ دیا تو اولاد خودکشی جیسے اقدام کرنے لگتی ہے،برداشت اور تحمل بلکل ختم ہوچکا ہے رہی ادب و احترام کی بات تو اسے قصہ پارینہ ہی سمجھیں۔پر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ نئی نسل کو یہاں تک لانے والا کون ہے کیونکہ بچہ جب دُنیا میں آتاہے تو بلکل کورے کاغذ کے جیسا ہوتاہے اس پرجولکھاجاتاہے وہ اسی کے اثرکوقبول کرتاہے اس سب میں سوشل میڈیا اور جدیدٹیکنالوجی کا بھی بھرپور ہاتھ کہیں توغلط نہ ہوگا،مگر ان کا استعمال بھی تو بچے کو اس کے اردگرد رہنے والے لوگ ہی سیکھاتے ہیں،بذات خود کوئی چیز اچھی یا بُری نہیں ہوتی اس کا استعمال اسے اچھا یا بُرا بناتے ہیں۔ہم بچے کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی اس کے ہاتھ میں موبائل تھما دیتے ہیں اور بعد میں قصور وار بچے کو ٹھہراتے ہیں خیر یہ ایک الگ مسئلہ ہے سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ موجودہ رویوں کو کیسے تبدیل کیا جائے؟کیسے نئی نسل کو بزرگوں کاادب،بڑوں کا احترام،چھوٹوں سے پیاروشفقت اور احترامِ انسانیت کا درس دیا جائے؟اس سلسلے میں میری نقص عقل تو یہی کہتی ہے کہ اس کے لیے ہمیں گھر سے کوشش کرناہوگی اور یہ بھی کہ یہ کوشش مسلسل کرناہوگی ایک دم سے سب کچھ پہلی روش پر نہیں آجائے گا بلکہ جس طرح بھگاڑ پیدا ہونے میں ایک عرصہ لگا ہے بلکل اسی طرح اسے ٹھیک ہونے کے لئے اس بھی ذیادہ عرصہ درکار ہوگا اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جب دلوں میں خوفِ خدا اور نیتوں میں خلوص آ جائے گا تو پھر عزت بھی محفوظ رہیں گی اور دوستانہ ماحول بھی پیدا ہوگا۔اللہ پاک ہمیں اپنے بڑوں کا احترام کرنے اور چھوٹوں سے شفقت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین ثم آمین۔اللہ پاک ہم سب کا حامی وناصر۔
ع: نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی گشتِ ویراں سے زرا نم ہوتویہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
(ادب واحترام) تحریر:تبسم صباء کنیز
