• Mon. Jun 30th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

(آخری آرام گاہ) تحریر:تبسم صباء کنیز (سادہ باتیں)

Aug 13, 2021

حضرت بہلول کو کسی نے دیکھا کہ سرِے بازار کھڑے رو رہے ہیں اُس شخص نے پوچھا یاحضرت کیا دجہ ہوئی کہ آپ یوں بازار میں کھڑے رو رہے ہیں تو حضرت بہلول کہنے لگے کے اللہ اور اس کے بندوں کے دومیان ناراضگی ہوگئی ہے ان کی صلح کروانے کی کوشش کر رہا ہوں اللہ تو مان رہا ہے مگر رونا اس بات کاہے کہ بندے نہیں مان رہے،یہ جواب سُن کر وہ بندہ وہاں سے چلا گیا،کچھ دونوں کے بعد اسی بندے کا گزر وبرستان کے پاس سے ہوا کیا دیکھتا ہے کہ حضرت بہلول آج قبرستان میں کھڑے رو رہے ہیں اس آدمی نے ان سے پوچھا کہ یاحضرت آج کیا ہوا صلہ ہوبندوں اور ان کہ رب کی تو حضرت بہلول کہنے لگے کہ اسی لیے تو رو رہا ہوں اس دن رب مان رہا تھا مگر بندے نہیں مان رہے تھے مگر آج معاملہ اُلٹ ہو گیاہے آج بندے تو مان رہے ہیں مگر بندوں کا رب نہیں مان رہا۔ ایک وقت تھا کہ اگرکسی محلے یاگا ؤں میں فوتگی ہوجاتی تو اس جگہ کی مکمل فضاء سوگوارہوجاتی،گھر میں ٹی وی تک کئی کئی روز کے لئے بند کردیے جاتے اور یہ جملہ زبان ذدعام ہوتاکہ کل ہم نے بھی مرناہے فوتگی اگرکسی گاؤں میں ہوئی ہوتی توپورے گاؤں کی فضاء اداس اور غمگین ہوجاتی پھر ہم تھوڑے ماڈرن ہوگئے بہت سے لوگوں نے دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کرلی اوربات گلی محلوں تک محدود ہوگئی اور اب چشم فلک اس منظر کانظارہ بھی کر رہی ہے کہ تیرہ مرا توصرف تیرا مرا، میرا مرے گا توجانو گا۔مہنگائی کے اس دور میں موت کے بعد تدفین کے اخراجات اس قدر ذیادہ ہوگئے ہیں کہ غریب آدمی کوتومرنے سے بھی ڈرلگنے لگاہے کیونکہ وہ سوچتاہے کہ ساری زندگی محنت مزدوری کرکے جو چار پیسے جمع کیے ہیں وہ تو تدفین میں خرچ ہوجاہیں گے اس کے بعد میرے اہل خانہ کیا کریں گے یا جس کی دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری ہورہی ہے وہ تدفین پہ ہونے والے اخراجات کے بارے میں سوچ کر ہی مرنے سے پہلے مررہے ہوتے ہیں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جینا تو جینا مرنا اس سے بھی ذیادہ مشکل ہوگیاہے کفن کے لیے کپڑے اور دیگراشیاء کے علاوہ قبر کے لیے درکار زمین اور پھرقبربنانے پر اس قدر اخراجات آنے لگے ہیں کہ غریب آدمی کا سوچ کرہی دل دہل جاتاہے،اس خوف کو ہوا دینے میں رہی سہی کسر پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی والوں نے نکال دی ہے جن کو صرف پیسے کمانے سے غرض ہے زندگی کی سب سے بڑی اور تلخ حقیقت موت کے بارے میں کچھ خیال ہی نہیں۔کچھ اس ہی دل دہلا دینے والا واقع کچھ عرصہ پہلے میرے شہر کے مضافات میں واقعہ ایک پرائیوٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں پیش آیا،اس سوسائٹی کے مالکان نے بھی صرف زندوں کے لیے جگہ دی تھی مُردوں کے لیے سوچاتک نہیں تھااس سوسائٹی میں رہنے والی ایک خاتون کا انتقال ہوگیااس کے دفن کے لیے قریب کے گاؤں کے قبرستان کو منتخب کیا گیااور قبر تیار کرلی گئی جب نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بعد دفن کے لیے میت کو قبرستان لایاگیاتوعین اُسی وقت گاؤں کے کچھ بااثر لوگوں نے آکرتدفین کوروک دیااب کا کہنا تھا کہ ہمارے گاؤں کے قبرستان میں تو ہمارے گاؤں والوں کے لیے ہی جگہ کم ہورہی ہے لہذا آپ لوگ اپنی میت کی تدفین کا بندوبست کسی اور قبرستان میں کریں یا اپنی سوسائٹی میں قبرستان بنائیں۔کافی بحث ومباحثِ کے بعد بھی گاؤں والوں نے میت کی تدفین نہ کرنے دی اور فتوے کے مطابق قبر کو بند کردیاگیااور میت کے لواحقین کو میت سمیت چلتا کیاوہ بے چارے پہلے ہی غم سے نڈھال تھے بدل نخاستہ میت کو واپس گھر لے آئے اور دوسری طرف کے گاؤں کے قبرستان میں تدفین کی تیاری شروع کردی مگر یہ کیا یہاں بھی وہی مصیبت کہ اپنے قبرستان بناؤہمارے قبرستان میں مُردے لے کر نہ آؤ، بالاء آخر بڑی منت سماجت کے بعد انہوں نے میت دفن کرنے کی اجازت دی۔اتنے بڑے واقعہ کہ بعد بھی ہاؤسنگ سوسائٹی والوں کے کانوں پرجوتک نہیں رینگی آج بھی وہاں رہنے والے اسی پریشانی سے دوچار ہیں کہ مرگئے توکہاں دفنائے جائیں گے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کہناپڑے ”کتنا ہے بدنصیب ظفرکہ دفن کے کئے دوگززمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔دُنیا کہ بہت سارے ممالک ایسے ہیں جہاں میت کے کفن دفن کا انتظام گورنمنٹ کی طرف سے کیاجاتاہے میت کے گھر والوں کوصرف کال کرکے ایڈریس بتانا ہوتاہے اورپھر اس کے میت جانے اور حکومتی ادارہ، مگر ملکِ پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں یہاں ہرکام مرنے والے کے لواحقین کو خود کرنا پڑتاہے شہری جیتے جی حکومت کے سارے ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے مرنے کے بعد بھی اگر اس کی طرف حکومت کا کوئی حق باقی ہے تو وہ اس کی جائیداد بیچ کرپورا کرلیاجاتاہے اور اس کے جواب میں حکومت کا کوئی فرض نہیں یعنی شہری کا حکومت پرکوئی حق نہیں صرف حکومت کاہی شہری پرحق ہے۔پچھلے دنوں (۴ جولائی ۱۲۰۲) کو چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ قاسم خان نے پاکستان کے تاریخ میں پہلی بار مرنے والوں کے بار میں کوئی ٹھوس قدم اٹھایا اور میرے خیال میں ان کا یہ فیصلہ بڑا تاریخ ساز اور سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے انہوں نے اپنے فیصلے لکھتے ہوئے کہا کہ شہری ساری زندگی مختلف اشیاء خریدنے پر حکومت کوٹیکس دیتاہے اور مرتے وقت بھی اس سے قبر اور تدفین کے پیسے لیے جاتے ہیں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ متعلقہ شہری کی تدفین کا خرچہ اُٹھائے انہوں نے اس سلسلے میں بین الاقوامی قوانین اور احادیث مبارکہ کا حوالہ بھی دیافیصلے میں حکم دیا گیا کہ کہ تدفین سے متعلق قانون میں ترمیم کی جائے اور تدفین کے لئے فری ٹرانسپورٹ بھی فراہم کی جائیانتظامیہ قبرستانوں کی دیکھ بھال اورٓن میں درخت لگانے کے حوالے سے بھی اقدامات کرے فیصلے میں ایل ڈی اے کو نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں قبرستانوں کے لیے جگہ مختص کرنالازمی قرار دیا گیاچیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پنجاب کے چار بڑے شہروں میں فوری طور پر ماڈل قبرستان بنائے جائیں شہرے خاموشاں اتھارٹی کو مکمل طور پر افعال کیاجائے اور اس میں پڑھے لکھے افراد کو میرٹ پر بھرتی کیا جائے اور قبرستانوں کے انتظامات اسلامی قوانین کی بنیاد پر کیے جائیں“ یہ فیصلہ پڑھ کر یقین کریں دل خوش ہو گیا کہ چلودیرآید درست آید،دیر سے ہی سہی مگر کسی کو خیال تو آیا کہ زندگی کی طرح موت بھی ایک حقیقت ہے اور اس سلسلے میں بھی کوئی قانون ہوناچائیے تاکہ غریب آدمی سکون سے مرتوسکے۔ پرسوچنے کی بات تو یہ جج صاحب کے کیے گئے اس فیصلے پہ عمل درآمد بھی ہوپائے گا یا نہیں کیونکہ وطنِ عزیز میں ذیادہ ترفیصلے صرف کاغذات کی زینت بن جاتے ہیں عدالت صرف فیصلہ کر کے عمل درآمد کا حکم دے سکتی ہے پر اس پہ کام محکموں نے کرنا ہوتا ہے پر بڑے افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ وطنِ عزیز میں محکموں کی کارکردگی سبحان اللہ،ہم زندہ توزندہ مُردوں کے ساتھ بھی دھوکا کرنے سے بعض نہیں آتے اب بھلا بندہ پوچھے مُردوں کو سہولیات کی کیا ضرورت ہے،کئی بار قبرستانوں کی خستہ حالی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے کہ ہمارے عقیدے کی مطابق یہ انسان کے سونے کی ابدی جگہ ہے اور ہمیں اسی کا کچھ خیال نہیں اور تو اور ہم تو قبرستانوں میں قبضہ کر کے وہاں مویشی خانے بنانے سے بھی درگزرنہیں کرتے بات ویہی ہے کہ مُردوں کو اتنی جگہ کی کیا ضرورت بندہ پوچھے انہوں نے کون ساکبڈی کھیلنی ہے بات تو اِن کی بھی سہی ہے پرچلواگراب کسی کواگر اس شہرخاموشاں کا خیال آہی گیا ہے تو قبرستان اتھارٹی کو بھی تھوڑا غصہ کھاہی لیناچایئے اور جج صاحب کے فیصلے پر چلو ذیادہ نہیں تو تھوڑا تو عمل درآمد ہونا ہی چاہیے فیصلہ تو خوش آئند ہے پر اب آگے آگے دیکھتے ہیں ہوتا ہے کیا۔ماڈل قبرستان بنتے ہیں یا اُن کا حال بھی ماڈل بازاروں جیسا ہی ہوتا ہے۔یاپھر ماڈل ٹاؤنوں کے جیسا جہاں آج بھی قبرستانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔اللہ پاک ہم سب کوفکرِ آخرت کی توفیق عطافرمائے(آمین) اللہ ہم سب کا حامی وناصر۔
ع ؛ پہلے شیشوں کے محل پھر دو گز زمیں کے مالک
موت کا فرشتہ ایک پل میں جاگیر بدل دیتاہے