• Sun. Jun 29th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

درسِ کـــــــر بلا تحریر :یاسر حسین

Aug 15, 2021

اسلام کی تاریخ کا ایسا عظیم سانحہ ــ”واقع کربلا ـ” جو رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا۔اسلا م کا یہ عظیم واقع و معرکہ جو حق وباطل کے درمیان وقوع پذیر ہوا حق نے سر تو کٹا دیا مگر باطل کے آگے سر نہ جھکایا۔آئیے تاریخ کے اُن اورراق کا مطالعہ کرتے ہیں۔ جب جگر گوشہ بتولؑ،نواسہ رسولؐ، زہرا ؑ و علیؑ کے گلشن کے پھول نے اس وقت کے ظالم وجابر ملعون حاکم یزید پلید کے سامنے کلمتہ الحق کہا اور یزید کی بیعت سے انکار کردیا۔یزید پلید نے اقتدار کے نشے میں دھت ہو کر اس ملعون نے ایک حکمنامہ جاری کیا کہ ان تین ہستیوں کو گرفتار کرلیا جائے یا مزاحمت کی صور ت میں ان کو قتل کر دیا جائے۔ وہ تین ہستیاں 1: حسین بن علیؑ2: عبدااللہ بن زبیر ؓ3:عبداللہ بن جبیرؓیہ خبر پور مکہ ومدینہ میں پھیل گئی۔امام عالی مقام حج کے احرام کو عمرہ تبدیل کر دیا۔ اُ دھر کوفیوں کے مسلسل خطوط آرہے تھے کہ ہم آپ ؑ کی حمایت کے لیے ہر طرح سے تیار ہیں آپؑ نے28رجب المرجب کو کوفہ کا سفر اختیار کیا۔اسلام کی سر بلند ی اور سرفرازی کے لیے یزید قوت کا مقابلہ کرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس وقت دمشق ( شام ) میں یزید پلید کی حکومت تھی یزید حکومت کے نشے میں دھت ہوکر اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لئے مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ پر حملہ کر دیا اور حرم رسول ؐ میں گھوڑے باندھے اور حرم رسول٫ؐ کی بے حرمتی کی۔کوفہ روانہ ہونے سے پہلے آپؑ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو اپنا سفیر بنا کر کوفہ روانہ کیا۔ جب مسلم بن عقیل ؓ کوفہ پہنچے تو کوفیوں نے ان کا بھر پور استقبال کیا۔ مگر کوفی مکر وفریب میں اپنی مثال آپ تھے مگر وقت کا ساتھ ساتھ کوفیوں کے ایمان ، ان کی تلواریں اور اُ ن کے ارادے بھی بدل گئے۔ اُدھر یزید ملعون نے عبیداللہ ابن زیاد کی سربراہی میں ایک لشکر کوفہ روانہ کیا۔ اس وقت کوفہ کا گورنر نعمان بن بشیر تھا جس کو یزید ملعون نے معزول کرکے ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کردیا۔ جب یزید کو یہ خبر ملی کہ خاندانِ رسالت مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہے تو اس جلد از جلد ابن زیاد کے لشکر کو کوفہ روانہ کیا۔امام عالی مقام کے کوفہ پہنچنے سے پہلے ابن زیاد نے کوفہ میں پہنچ کر رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اھل ِ کوفہ پر یہ ظاہر کیا کہ میں حسین بن علی ؑ ہوں جس کوفہ کے لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر نا شروع کر دی۔مگر یہ بات زیادہ دیر تک نہ چھپ سکی اور حقیقت عیاں ہو گئی۔پھر ابن زیاد ملعون نے اھلِ کوفہ مال وزر کا لالچ دے کر اُن کا ایمان اور اُن کی تلواریں خرید لی۔اور ساتھ ہی اس نے سفیر ِ حسین مسلم بن عقیل اور اس کے دو کمسن بچوں کے قتل کا حکم جاری کر دیا گیا۔ مگر اس سے پہلے مسلم بن عقیل ؓ نے ایک خط لکھ کر ایک قاصد کے حوالے کیا جو امام حسین ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ خط میں یہ تحریر تھا کہ اہلِ کوفہ بِک چکے ہیں اب اُ ن کی تلواریں اور اُن کے ارادکے بدل چکے ہیں۔مگر امام ؑ نے یہ سوچ کر سفر جاری رکھا کہ ہوسکتا ہے کہ اہلِ کوفہ شاید میری بات کو اچھی طرح سے سمجھ سکیں ۔ اور حمایت پر آمادہ ہو جائیں۔لہذا آپ نے سفر کا ارادہ ترک نہ کیا۔ قافلہ امامِ عالی مقام یکم محرم کو دریائے فرات کے کنارے خیمہ زن ہوا۔ ابن زیاد لعین نے ایک لشکر رعَمر ابن سعد ملعون کی سربراہی میں دریائے فرات کے کنارے مقر کر دیا۔ اس مقام سے اہلبیتؑ کے خیمے اکھاڑ دیے گئے۔ اور اس کچھ فاصلے پرخاندانِ رسالت کے خیمے مقامِ نینوا پر نصب ہوئے۔عَمرابن سعد اس لشکر کا سپہ سالار تھا۔ اس نے ابن زیاد کے کہنے پر 7محرم الحرام اولادِ رسولؐ پر پانی بند کر دیامعصوم بچے پیاسے تھے ہر طرف پیاس کا غلبہ تھا العطش العطش کی صدائیں بلند ہورہی تھی پیاس کی شدت بڑھ رہی تھی ظلم وجبر وبربریت کی انتہا تھی۔ وارثِ اسلام بھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھال تھے۔ امام ؑ بار بار یزیدی لشکر کر طرف گئے اور انہیں اپنا تعارف کرایاکہ مجھے پہچانو میں نواسہِ رسول ہوں۔ دوشِ رسالت کا سوار ہوں میں تمہارے نبی ؐ کے دل کا چین ہوں میں غریب الدیار وطن ہوں۔مجھے پہچانو۔ مگر افسوس کہ مال وزر کی لالچ نے انہیں اندھا کر رکھا تھا۔ساری رات بیبیاں اپنے خیموں میں تلاوت کرتی رہی۔ شب عاشورہ امام عالی مقام نے اپنے تمام اصحاب کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ شامی و کوفی میر ی اور میرے خاندان والوں کی جان کے درپے ہیں لہذا تم سب کو اجازت ہے جو جانا چاہے جا سکتا ہے اورجلتے ہوئے چراغ کو گُل کر دیا تاکہ کسی کو جانے میں شرمندگی محسوس نہ مگر قربان جاؤں جانثارانِ حسینؑ پر جب چراغ روشن کیا گیا تو سب کے سب موجود تھے۔ نو محرم کی رات گزری اور دس محرم 61؁ ء ہجری کا سورج طلوع ہوا۔ اس دن ظلم وبربریت کی وہ داستان رقم ہوئی جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔دس محرم کو حق وباطل کا معرکہ شروع ہوا۔ہر طرف تلواروں کی چھنچھناہٹ شروع ہوئی ہر طرف تیر ، نیزے اور بھالے تھے۔یزیدی لشکر اہلبیت کے خون کا پیاسا تھا۔ جنگ کا آغاز ہوا تمام جانثارانِ حسین نے باری باری اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔اس معرکے میں آپ کے بھائی حضرت عباس علمدارؑ ، آپ کے بیٹے شہزادہ علی اکبرشہزادہ علی اصغر ؑ ، آپ کے بھتیجے امیر قاسم ؑ ،آپ بھانجے عون ومحمد ؑ اصحاب میں حبیب ابن مظاہر ، مسلم ابن عوسجہ ،حُر ابن تمیمی ،ان تمام جانثارانِ حسینؑ نے انتہائی شجاعت اور بہادری سے یزیدی لشکر کا مقابلہ کیا اور بہت سے یزیدیوں کو واصل جہنم کیا اور شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوئے۔اور اپنی جانیں اسلام کی خاطرقربان کردی۔سلام ہو ہمار ااُن عظیم ہستیوںپر۔آخر میں نواسہ ِ رسولؐ جگر گوشہ علی و بتولؑ جنت کے پھول ؑ تن تنہا رہ گئے۔بے یار ومدد گار رہ گئے کوئی اُن کی مدد کرنے والا نہ تھا۔ ہر طرف نیزوں ،بھالوں اور تیروں کی برسات تھی۔ نواسہِ رسول ؐ تھے اور کربلا کی تپتی ریت تھی۔یزیدی لشکر نے آپ ؑ پر یک لخت حملہ کر دیا اور امام عالی مقام امام حسین ؑ اپنی سواری مرتجز سے زمین کی زینت بنے اس پر شمر ذوالجوشن ملعون نے موقع پاکر امام عالی مقام پر حملہ کر دیا۔ اس وقت امام عالی مقام زخموں سے چُور چُور تھے۔ اُس ملعون نے آپ ؑ کی گردن مبارک پر خنجر سے وار کردیااس طرح تیرہ ضربیں چلائی اور آپ ؑ کا سر مبارک تن سے جدا کردیا۔جس پر زمین اور آسمان لرز اُٹھے قیامت کا منظر تھا۔ آسمان خون سے رنگین ہوچکا تھا۔ فرشتہ وملائک ، جن و انس آپ ؑ کی مظلومیت پر اشک بار تھے۔جگر گوشہ ِ رسول ؐ امام حسین ؑ کا لاشہ مبارک صحرا کی تپتی ریت پر چالیس دن بے گور وکفن پڑا رہا۔ اور یوں نواسہِ رسولؐ نے اپنی جان ک نذرانہ بارگاہِ الٰہی میں پیش کر دیا۔ اور سید الشہدا ء کے رتبے پر فائز ہوئے۔ سر سجدے میں کٹا دیا مگر باطل کے آگے سر نہ جھکایا۔اور کلمہ حق کو ہمیشہ کے لئے بلند کیا۔ اور سجدے میں سر کٹا کر امت مسلمہ کو کو بہت سے پیغامات دیے۔جس میں سب سے پہلا پیغام حق کی خاطر ڈٹ جانا، نماز کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنا،راہِ خدا میں اپنا سب کچھ لٹا دینا اور وقت کے یزیدوں سے ڈٹ کر مقابلہ کر نا سکھایا۔فلسفہ حسینیت ؑ میں ہمارے لیے وہ درس ہے جو ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے راہِ ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اور دینِ اسلام پر قائم رہنے کا زریں اصول ہے۔
مٹ کر بنا جو زیست کی توقیر کون تھا
پہنائی جس نے وقت کو زنجیر کون تھا
اک حرف لا الہ ٰ پہ سر کو کٹا دیا
انسان تھا فرشتہ تھا شبیر کون تھا