• Tue. Jul 1st, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

نیت اورحیثیت تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

Sep 11, 2021

اسلام میں کسی کے ساتھ سلوک اُس کی نیت کے مطابق کیاجاتا ہے جبکہ اسلامی ممالک میں کسی کے ساتھ سلوک اس کی حیثیت کے مطابق کیا جاتا ہے۔٭یورپی ممالک میں کسی کے ساتھ سلوک اس کی قابلیت کے مطابق کیاجاتاہے تو مشرق وسطی میں کسی کے ساتھ سلوک اس کی خاندانی جاذبیت کے مطابق کیاجاتا ہے٭۔
اُمت مسلمہ ایک عرصے سے نازک صورتحال سے دوچار ہے۔ایک محقق کا کہنا ہے کہ نازک صورت حال سے دوچار ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نیک نیت لوگ رہ ہی دو،چار گئے ہیں۔٭یہ فیصلہ کرناتومشکل ہے کہ صاحبِ نیت دو ہیں یاچار ہیں مگر جتنے بھی ہیں، اپنے آپ سے بیزار ہیں اور اس دنیا سے جانے کو تیار ہیں کیونکہ وہ بھی اکثریت کی آنکھ میں مثلِ خار ہیں ٭۔ ہمارے ہاں صاحب ِحیثیت لوگوں کی کمی نہیں ہے لیکن صاحب ِنیت لوگوں کا وجودنہ ہونے کے برابر ہے۔صاحب ِحیثیت لوگ گننے میں نہیں آتے اور صاحب ِنیت لوگوں کوہم گنناچاہیں بھی توڈھونڈنہیں پاتے۔٭ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں اب صاحبِ ِنیت لوگوں کا کال ہے۔ صاحب ِحیثیت بندوں کا اپناوبال ہے۔ عجیب اُن کی چال ڈھال ہے۔کبھی نہ اُن کو اجتماعیت کاکوئی خیال ہے۔ اُن کے ہوتے ہوئے اُمت کے دن بدلنا محال ہے٭۔
ایک طویل مدت سے یہ اُمت ہر طرح کے بحرانوں کی زد میں ہے مگر میرے خیال میں ہمارا سب سے خطرناک بحران نیت کا بحران ہے۔٭ ہمارے ہاں کسی شعبے میں اگر کوئی صاحبِ نیت آ بھی جائے تو ہم اس کی قابلیت پر بحث شروع کر دیتے ہیں اور اپنی ساری قابلیت اس کی شخصیت کو داغ دار کرنے میں لگا دیتے ہیں۔٭تاریخ شاہد ہے کہ آخر کار صاحبِ نیت کی شخصیت نکھر ہی جاتی ہے اور اس کے خلاف ہر سازش بکھر ہی جاتی ہے۔٭
نیت کا شخصیت پر جو اثر ہوتا ہے اس کے بارے میں میرے خیال میں سب کو پتہ ہے اور بات کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اچھی نیت اللہ تعالی کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے اور یہ ایک ایسی خوبی ہے جس کے سامنے بعض اوقات دوسروں کی تمام صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔
دنیا کا سب سے آسان کام دوسرے کی نیت پر شک کرنا اور دنیا کا سب سے مشکل کام اپنی نیت کو صاف کرنا اورپاک صاف رکھنا ہے۔٭ ایک معقول آدمی کو ہمیشہ اپنی نیت اور دوسرے کی شخصیت پہ بات کرنی چاہیے۔ مگرہمارے ہاں اب یہ رواج بن گیا ہے کہ ہم دوسروں کی نیت اور اپنی شخصیت پر بات شروع کردیتے ہیں ٭ اگرہم اپنی نیت سنوار لیں تو شخصیت خود ہی نکھر جائے گی مگر ہم شخصیت سنوارتے رہتے ہیں اور ہمارے کندھوں پہ بیٹھے فرشتے یہی پکارتے رہتے ہیں ”اعمال کا دارومدارتو نیتوں پر ہے“٭۔
ہیرا لال دہلوی نے بہت پہلے کہا تھا
”نیت اگر خراب ہوئی حضور کی،
گھڑ لو گے کہانی کوئی ہمارے قصور کی“
ایسی بات کوئی ہیرے جیسا ہیرالال ہی کہہ سکتا ہے۔٭فیض صاحب جسے عظیم انسان ہی کہہ سکتے تھے کہ ان کے دل پہ بجز ندامت کے ہر داغ ہے۔٭بعض اوقات ہماری نیت دوسروں سے آگے نکلنے کی بجائے اُن کو پیچھے دھکیلنے کی ہوتی ہے ٭۔ دنیااگراعمال کے آڈٹ کانام ہے تو آخرت نیت کے آڈٹ کا نام ہے یہ آڈٹ اللہ پاک کی ذات کرے گی اس لیئے ہمیں اس آڈٹ کیلئے زیادہ تیاری کرنی چاہیئے۔٭
ایک صاحب حال بزرگ کاکہنا ہے کہ روحانی امراض اور نفسیاتی امراض کادرحقیقت منبع ایک ہی ہے۔ان کا واحد علاج نیت کی بہتری ہے کیونکہ یہ پیداہی نیت کی خرابی سے ہوتے ہیں۔٭انہوں نے مزیدفرمایا، ہمارے ہاں پہلے جسمانی امراض کا علاج طبیعتوں کو دیکھ کر کیا جاتا تھا اور روحانی امراض کا علاج نیتوں کو دیکھ کر کیا جاتا تھا۔صوفیائے کرام لوگوں کی نیت کی تظہیر کیلئے ساری زندگی لگا دیتے تھے۔٭ جسمانی امراض کا علاج طبیعتوں پر جبکہ روحانی امراض کا علاج نیتوں پر منحصر ہے۔٭
ایک دفعہ وقت کے ولی نے کہا کہ درحقیقت نیت اور شخصیت ایک ہی چیزکے دونام ہیں اگر کوئی اپنی شخصیت سنوارنا چاہتا ہے تو اسے اپنی نیت سنوارنی چاہیے۔٭بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں شخصیت اور حیثیت کو ایک ہی چیز سمجھ لیا گیا ہے۔٭اگرکسی آدمی کی دنیاوی حیثیت بڑی ہو تو ہم سمجھتے ہیں کہ اُس کی شخصیت بھی بڑی ہے جبکہ صوفیائے کرام کی نظر میں شخصیت،نیت کادوسرا نام ہے۔نیت حسین تو شخصیت بہترین۔٭
شاعر نے اپنے محبوب سے شکوہ کیا تھا کہ اگر اُس کی نظروں میں محبوب کی صورت پھیرتی رہے اوراُس کا حسن اُس کو ستاتا رہے تووہ بیچارہ کیا کرسکتا ہے۔یہی المیہ ہمارے عام آدمی کا ہے وہ جانتا ہے کہ صاحب جاہ وحشم کی نیت اُس کو ستانے کی ہے اوریہ بات ہروقت اُس کے دل میں پھرتی رہتی ہے مگر وہ اپنی بے بسی سے خوب واقف ہوتا ہے۔
ایک شاعر کو اندیشہ تھا کہ کہیں اس کی نیت شوق بھر نہ جائے اور اس کا محبوب اس کے دل سے اتر نہ جائے۔ شعرکی تشریح کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ نیت بھرجانے اور دل سے اُتر جانے کا اندیشہ یہ ثابت کرتا ہے کہ شاعر کامحبوب صاحب ِحیثیت نہیں تھا اور شاعر صاحب ِنیت نہیں تھا۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلوں کی شخصیت خوبصورت ہو تو ہمیں نیک نیتی سے ان کی نیت کی تربیت کرنی چاہیے۔٭ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر نیت خوبصورت ہوگی تو شخصیت خود بخود ہی خوبصورت ہو جائے گی کیونکہ شخصیت نیت کا ہی پر توہے۔٭ پنجاب کامحاورہ یہی ہے کہ ”ہر آدمی اپنی نیت کا پھل پا کر رہتا ہے“۔اس میں، میں اتنا اضافہ کرتا ہوں کہ ہر آدمی اپنی نیت اور اپنے بچوں کی تربیت کا پھل اسی دنیامیں پالیتاہے۔٭
ایک صاحب ِذوق نے بڑے غصے سے کہا تھا کہ وہ مورکھ انسان نہیں جس کو سُر کی پہچان نہیں۔اولیا اللہ کہتے ہیں کہ وہ صاحب گیان نہیں جس کو دوسرے کی نیت کی پہچان نہیں اورجس کا اپنی نیت کی طرف دھیان نہیں۔

(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہا ہیں)

شکریہ نیوز ٹائم