چین کی ایک کہاوت کے مطابق ہم زمانے کے ہنگامہ خیزدورمیں زندہ ہیں۔ہرلحظہ کچھ نہ کچھ نیا وقوع پذیرہورہا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں جدیددورکی زندگی بہت عجیب ہے۔ ہرطرف ایک ہجوم ساہجوم ہے۔پہلے بندہ دیہات جاتاتھاتو سبزہ اور دیگر اجناس دیکھ کر روح کوسکون ملتاتھا۔ اب گاؤں میں اکثرمقامات پر جنگلی کیکرہی نظر آتے ہیں۔ جنگلی کیکر اتنی تیزی سے پھیل رہے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ خالی اوربنجرزمین پر کیکراتنی تیزی سے کیسے نشوونما پاجاتے ہیں۔شہر میں ہر چینل پرہروقت، ہرطرف، ٹکرِ ہی ٹکرِ نظر آتے ہیں۔چینلزپر چلنے والے ٹکرِز دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ کہاں سے آگئے اور کیوں کرآگئے۔ کیکر اور ٹکرِآتو آسانی سے جاتے ہیں مگر اُن کا جانااکثراوقات اتنا آسان نہیں ہوتا۔ خود رو کیکر اچھے خاصے گاؤں کا حسن تباہ کر دیتے ہیں۔ بہت سارے خود رو ٹائپ ٹکرِ ز بھی اکثراوقات اچھے خاصے بندے کا موڈ تباہ کردیتے ہیں۔ چاہے کتنا ہی مزیدار پروگرام چل رہا ہو، اس کا حسن بھی تباہ کردیتے ہیں۔بہت سے کیکر اورٹکرِز کے بارے میں بھی ماہرین کا خیال ہے کہ اُن کا نہ ہونا، ہونے سے بہت بہتر ہوتا۔
بریکنگ نیوز کامطلب میرے ایک دوست یہ بتاتے ہیں کہ جس نیوز کو بریکنگ نیوز کادرجہ پاتے دیکھ کر بندے کا دل بریک ہوجائے، اُس کے عقل وفہم کو بریک لگ جائے۔اپنے تمام الیکٹرونک آلات اور سر بیک وقت بریک کرنے کو دل کرے، دراصل وہی بریکنگ نیوز ہوتی ہے۔کئی دفعہ ہمارے ہاں صرف بریکنگ نیوز ہی چل رہی ہوتی ہے اور عام نیوزکی باری کئی کئی دن نہیں آتی۔ایک شاعر نے کہا تھاکہ ضروری نہیں ہرآدمی انسان بھی ہو۔ بریکنگ نیوز کو بھی اکثراوقات نیوز ہونامیسرنہیں ہوتا۔
ایک شاعر نے اپنے ذکر پر رشک کااظہار کیاتھا۔ وجہ یہ بتائی تھی کہ وہ اپنے محبوب کی محفل میں موجود ہویا غیر حاضر ہو، اُس کا ذکر مگرمحبوب کی مجلس میں ہوتارہتا ہے۔ بہت سے لوگ کسی نہ کسی چینل سے ہروقت کسی نہ کسی چینل پرخودموجود ہوتے ہیں ورنہ اُن کا ذکر کسی نہ کسی چینل پر کسی نہ کسی حوالے سے ہورہا ہوتاہے۔کئی لوگ ایسے بھی ہیں جوکسی چینل سے بچنے کیلئے اپنے تمام چینلزاستعمال کرتے ہیں مگر پھر بھی اُن کا ذکر کاٹکرِ کہیں نہ کہیں چل ہی رہاہوتاہے، اگرچہ یہ معاملہ اُن کیلئے بہت ہی باعثِ فکر ہوتاہے۔اُردو کامحاورہ ہے ”ایک ہاتھ ذکرپردوسرا ہاتھ فکر پر“۔
گئے وقتوں میں بلو کے لونگ کے لشکارا جب پڑتاتھا تو ہالی اپنے ہل روک لیتے تھے۔آج کل کسی چینل کے ٹکرِ کا لشکارابعض اوقات کسی کی زندگی روک دیتا ہے۔”رائی کاپہاڑ بنانا“تو پُرانی بات ہے۔آج کے دور میں کسی ہرجائی کو قصائی بنانا اورکسی دوست کو دیوتا بناناقطعاً مشکل نہیں ہے۔
ٹکرِ،ذکراورفکر میں عجیب رشتہ ہے۔کسی کاٹکرِ نہ چلے تو اُسے فکر ہوجاتی ہے جبکہ کسی کاٹکرِ چل جائے تو وہ ہروقت یہی فکر کرتا رہتا ہے کہ میرے نام کاٹکرِ کیوں چل گیا اوراس فکر میں وہ اور کسی چیز کا ذکر کرنا بھول جاتا ہے۔ایک صاحبِ حال بزرگ کا کہنا ہے چلا ہے جو ٹکرِ،تو کچھ نہ کچھ باعثِ ٹکرِ بھی ہوگا۔بہت سے لوگ یہ دہائی دیتے رہ جاتے ہیں -:
ٹھہرے جو میرا ذکر ضروری تو کسی طور
میرے لیئے مخصوص کوئی باب نہ کرنا
کچھ عرصہ پہلے تک خبرکے معیاراوراپنے ذاتی وقارپرسمجھوتے کا رواج قطعاً نہ تھا۔آج بھی بہت سے لوگ اس روایت کے امین ہیں۔ وہی آنے والی نسلوں کے من کے مکین ہیں۔ہمارے معاشرے میں مگر دشمنوں کی کردار کشی رفتہ رفتہ معمول بنتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت جھوٹ کوہرلحظہ بڑھوتری مل رہی ہے۔سچ کوپہچاننامشکل ہی نہیں ناممکن کردیاجاتاہے۔ ہمارے مذہب میں کسی پرجھوٹی تہمت لگاناگناہ کبیرہ ہے۔ کسی شخص کے بارے میں بُراگمان رکھنا بھی شدید نا پسندیدہ ہے۔ ایک حدیث پاک کامفہوم ہے کہ ایک انسان کیلئے اتنا گناہ ہی کافی ہے وہ دوسرے کو حقیر سمجھے۔ ایک دوسرے کے جان و مال اورعزت کی حفاظت ہم پر فرض کر دی گئی ہے۔ معاشرے کی موجودہ روش دیکھ کر بعض اوقات یہ لگتا ہے کہ رواداری اور باہمی احترام کی ہماری درخشاں روایت جلد ہی قصہ پارینہ بن جائے گی۔گالم گلوچ کبھی بھی ہمارے کلچر کا حصہ نہیں رہا۔ہمارے ہاں لکھنو اوردہلی کی تہذیب ایک مثال کادرجہ رکھتی ہے۔ اُس دورمیں تلخ ترین گفتگو کے دوران مخالف کے احترام کوپوری طرح ملحو ظ خاطر رکھاجاتا اور کوئی بھی لفظ اُسے بہت بوجھل نہیں لگتاتھا۔
آئیے ہم عہد کریں کہ اپنے بزرگوں کے ورثے کی حفاظت کریں گے۔ہمیشہ دشنام طرازی سے گریز کریں گے۔ مومن وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ ہمیشہ محفوظ رہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کی زبان کے شر سے اوردوسروں کو ہماری زبان کے شر سے سدامحفوظ رکھے۔آمین۔
من کیکر کی ایک ٹہنی، صندل کر مولا
پھر صندل کو صندل کا جنگل کر مولا
ایک عمر ہوئی ہے سارا تن من راکھ ہوئے
اب دھوپ بھرے ملبوس کو بادل کر مولا
(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر، چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں)
”کیکر،ٹکرِ،ذکر اورفکر“ تحریر:ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
