نشتر میڈیکل کالج میں میرے دو ہم جماعت ایک کمرے میں رہتے تھے ان میں سے ایک پڑھنے پڑھانے کے بہت ہی زیادہ شوقین تھے اور دنیا کے کسی کام میں دلچسپی نہیں لیتے تھے ان کو”خشکا“کہا جاتا تھا جبکہ دوسرے دوست ہر وقت کھیل کود اور غیر نصابی سرگرمیوں میں مگن رہتے تھے ان کو”چیتا“ کہا جاتا تھا۔آخری سال میں ”چیتا“صاحب کو سارا سال پڑھنے کاوقت نہ ملاجبکہ”خشکا“صاحب دن رات پڑھتے رہے۔میڈیسن کے پرچے سے ایک دن پہلے ”چیتا“ صاحب، ”خشکا“ سے کہنے لگے کہ یارمجھے بھی کچھ بتاؤ میں کیاپڑھوں؟خشکے نے ایک بھرپور نظر اُن پر ڈالی اور بڑے گیانی لہجے میں فرمایا”یار اب تم نفل ہی پڑھو“۔
بہت سارے قفل صرف نفل سے ہی کُھلتے ہیں۔ ہمارا دین ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ ہم مصیبت کے وقت صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگیں۔دعامومن کاہتھیارہے۔تقدیرپرایمان ہماری شان ہے تو بہتر سے بہتر تدبیر کرنا ہمارے بزرگوں کی پہچان ہے۔دنیاعالم اسباب ہے یہاں انسان کو عام طور پر وہی ملتا ہے جس کیلئے وہ کوشش کرتا ہے۔حج اسلام کی ایک اہم ترین عبادت ہے اس کا ایک اہم اور خوبصورت ترین رکن”سعی“ ہے۔”سعی“حضرت حاجرہ کی کوشش کی خوبصورت ترین یاد ہے۔ حضرت محمدﷺ کی ذات ہمارے لیئے کامل نمونہ ہے۔آپ کی زندگی کاہرلمحہ جدوجہد کی روشن مثال ہے۔ ہمارا دین ہمیں بھرپور محنت کرنا سکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کے لیے ایک بہترین ٹائم شیڈول خود ہی ترتیب دیا ہے۔ہمارا دین ہمیں نظم وضبط اورکی پابندی کا درس دیتا ہے۔
زندگی کی خوبصورتی کاراز توازن میں ہے۔جس آدمی کی زندگی میں توازن نہیں وہ خودہی اپناراہزن ہے اپنی زندگی کھوٹی کرتارہتا ہے۔ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ ہم دنیا کیلئے بہتری مانگیں اورآخرت کیلئے بھی بہتری مانگیں۔ اللہ کے آخری پیغمبر کے ارشاد کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ بہترین راستہ متوازن راستہ ہے۔
ایک شاعر نے استفسار کیا تھا کہ تقدیر کے موسم میں کتنی محنت کی جا سکتی ہے۔ ایک اورشاعر نے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ وقت برسوں پرورش کرتا ہے۔کوئی بھی حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ حضرت علامہ اقبال نے ایک آفاقی سچائی کو بیان کرتے ہوئے یہ تاریخی حقیقت بتائی کہ ”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس قوم کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو“۔الہامی کتاب بھی یہی کہتی ہے کہ انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کیلئے وہ کوشش کرتا ہے۔ حکیم اُمت نے فرمایاکہ افراد کے ہاتھوں میں ہی اُن کی اقوام کی تقدیر ہوتی ہے۔ہرفرد اپنی ملت کا ستارہ ہوتا ہے اس کے عروج زوال کا استعارہ ہوتاہے۔جس قوم کے جتنے زیادہ افراد محنت کرنے والے ہوں وہ قوم اتنی ہی ترقی ہافتہ ہوتی ہے۔
ہمارے پیغمبر اتنی زیادہ محنت کرتے تھے کہ انہیں کہاگیاکہ وہ کچھ وقت اپنے آرام کیلئے بھی کچھ وقت مختص کریں۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں لوگ رات کو نفلی عبادت کرتے تھے اور دن کو دنیاکی بہتری کیلئے کاوشیں کرتے تھے۔ انصار نے پیغمبرخدا کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ کہ وقت پڑنے پر وہ حضرت موسی کی اُمت کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑیں اور ہم یہاں بیٹھے ہیں۔مسلمان تقدیر اور تدبیر دونوں کی اہمیت سے واقف تھے اوربہترین پلاننگ کرنے پریقین رکھتے تھے۔ کتابوں میں ایک خلیفہ راشد کے دور کا واقعہ ملتا ہے کہ ایک شخص فجر کے بعد عبادت کر رہا تھا تو اُس کو مسجد سے یہ کہہ کر کے بھیج دیاگیاکہ دن محنت کیلئے ہے آپ جائیے اور اپنے بچوں کے لیے رزق کمانے کیلئے محنت کیجئے۔ ایک بزرگ نے بہت خوبصورت طریقے سے مسلم طرز زندگی کو بیان کیا ہے کہ خلوت کو آنسوؤں سے منور رکھیں اور جلوت کو مسکراہٹ سے روشن رکھیں۔ یہی مسلم طرز زندگی ہے۔خلوت اللہ کیلئے ہواورجلوت مخلوق اللہ کیلئے۔
ساغرصدیقی کوعمر بھر یہ گلہ رہا کہ ان کی زندگی جبر مسلسل ہے ہمارے دین کی منشا یہ ہے کہ مسلمان کی زندگی جہدمسلسل ہو۔ قائد اعظم کاہرفرمان سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اُن کی ہر بات سے ہمیشہ محنت کرنے کی تحریک ملتی ہے۔قائد نے ایک دفعہ فرمایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جب روز قیامت اللہ تعالی کے حضور پیش ہوں تو اللہ تعالی انہیں شاباش دیں اوراُن کی محنت سے خوش ہوں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہرپاکستانی اس بات کو اپنا مقصد حیات بنالے۔ہم میں سے ہر شخص اگر آج یہ تہیہ کرلے کہ اس نے روز جزا اللہ پاک سے شاباش لینی ہے تو ہمارے حالات بہت جلد سدھر جائیں۔
(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر، چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں)