”ماہی“ پہلے آتاہے یا”تباہی“ پہلے آتی ہے یہ سوال ویسا ہی پیچیدہ ہے جیسا کہ پیچیدہ مسئلہ اُن صاحب کودرپیش آیاجو اپنے گھر آئے تو زلزلہ آرہاتھا اوراُن کی صحت مند زوجہ زمین پر گری ہوئی تھیں۔زلزلہ تھم جانے کے بعد اُن صاحب نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ زلزلہ آیاتو تم گریں یا تم گریں تو زلزلہ آیا۔ راوی بیانی ہے کہ بیوی نے کیاجواب دیا،اس بارے میں توتاریخ خاموش ہے مگراُن صاحب کواصل زلزلے کاسامنااس سوال کے بعدکرناپڑااوروہ کہیں دفن ہوکررہ گئے۔آنے والے دنوں میں اگرچہ لوگ اُن کی جرات کا تذکرہ بڑے فخر کے ساتھ کرتے تھے مگر اُن کے نام کے ساتھ مرحوم بھی لگادیتے تھے۔
”ماہی ”اورعاشق کاچولی دامن کاساتھ ہے۔ عموماً اس ساتھ میں ”ماہی“کی چولی اورٹولی دونوں سلامت رہتے ہیں اوروہ اپنی بولیاں بولتے بولتے بڑی دھوم دھام کے ساتھ ایک دن ڈولی چڑھ جاتا ہے جبکہ عاشق کا دامن اور ضامن دونوں نہیں بچتے۔عاشق کا دامن تار تار اور ضامن بیچارہ گرفتا رہوجاتا ہے۔ عاشق زندگی سے بیزار ہوجاتا ہے اور سب کی نظروں میں خوار ہوجاتا ہے۔ جینا اس کیلئے باعث عارہوجاتاہے۔جب ”ماہی“ کی ڈولی اُٹھ رہی ہوتی ہے تو اُس کا جنازہ اُٹھ رہاہوتاہے۔
جن لوگوں کازندگی میں کبھی کسی ”ماہی“ سے واسطہ نہیں پڑااُن کو ”ماہی“ کی ”تباہی“ کی بابت سمجھاناکافی مشکل ہے ایسے ہی معاملات کے بارے میں ہمارے سیانے پہلے ہی کہہ گئے ہیں کہ”وا پیا جانے یاراہ پیاجانے“۔انگریزی کا اس بابت محاورہ ہے کہ ”صرف پہننے والے کو ہی یہ پتہ ہوتا ہے کہ جوتا کہاں کہاں کاٹتا ہے اورکس کس طرح کاٹتاہے“۔ ہمارا ایک شاعر تو اپنے ”ماہی“ کو پہلے ہی بتا چکا ہے کہ ”جتنی اُس کے تن پر چوٹیں لگی ہیں اگر اُس کے ”ماہی“ کوایک بھی لگی ہوتی تو ”ماہی“ کے ہوش ٹھکانے آجاتے اور ”ماہی“ صاحب ”ماہی“ نہ رہتے ”ماہی بے آب“بن چکے ہوتے۔
ہم مروت پسند اورامن پسندلوگ ہیں۔اسی لیئے ہمارے ہاں کسی شاعریا ادیب نے آج تک ”ماہی“ اور”تباہی“ کے درمیان ازلی اوراصلی رشتہ پر کھل کے بات نہیں کی۔تباہی کے وقت ”ماہی“کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے یا”ماہی“ آجائے تو تباہی خود ہی آجاتی ہے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا۔جھنگ میں ”ماہی“ کو ڈھول بھی کہاجاتا ہے اورپرانی پنجابی فلموں کی ہیروئن کو دیکھنے کے بعد اس کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے۔ایسے ہی ایک ڈھول نما”ماہی“ کے نہ آنے پرشاعر ساری رات روتا رہااگرچہ نقادکہتے ہیں کہ وہ آنسوخوشی کے تھے۔”ماہی بے آب“ہویاآب دار، اس کی تباہی لانے کی صلاحیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔”ماہی“کو اُس کے نام سے نہیں کام سے اورعاشق کے انجام سے یادرکھناچاہیئے جوکہ عموماً ایک سا ہی ہوتا ہے۔
سیانے کہتے ہیں کہ”ماہی“ اورراہی کسی کے نہیں ہوتے۔ایک صاحب کہتے ہیں کہ بجا ہے ”ماہی“ اورراہی کسی کے نہیں ہوتے مگر انہوں نے کسی کاہوکر کرنابھی کیاہوتا ہے؟ اگروہ کسی کے ہوجائیں تو ”ماہی“ اورراہی نہ رہیں کچھ اورہی ہوجائیں۔جب ساری دنیا خود ہی ”ماہی“ کی ہورہی ہو تو ”ماہی“ کسی کا کیوں ہو۔ہر راہی کاخواب ایک ”ماہی“ ہوتا ہے جوپوراہوجائے تو ”تباہی“ ہوتا ہے اور پورا نہ ہوتوباعث رُسوائی ہوتا ہے۔
علامہ اقبال اس اُمت کے حکیم تھے۔وہ یہ تو بتاگئے کہ ہمارا نظام خانقاہی اُن کو خوش نہیں آیاکیونکہ یہ نظام مرد مومن پیدا کرنے میں ناکام ہوچکا تھااوراس نظام کی بدولت عقابوں کانشیمن زاغوں کے تصرف میں تھا۔ مرد مومن کی تباہی اوررسوائی میں ”ماہی“ کے کردارپرحکیم الامت اپنی گوں ناگوں مصروفیات کی وجہ سے خاطر خواہ توجہ نہ دے سکے۔اقبال کے فلسفے پرغوروفکرکرنے کے بعد نظام خانقاہی میں خاطر خواہ اصلاحات کی جاچکی ہیں مگر ”ماہی“ کی ”تباہی“ پہلے کی طرح جاری و ساری ہے اوریہ اُمت ابھی تک خرافات میں کھوئی ہوئی ہے۔
”ماہی“کے ارادے سے آگاہی ایک آرٹ بھی ہے اورسائنس بھی۔ عموماً ”ماہی“ جتنا معصوم نظرآئے اس کے ارادے اتنے ہی خطرناک ہوتے ہیں۔ ایسے ”ماہی“خلوت میں اپنے کرتوتوں میں بڑے بے باک ہوتے ہیں۔”ماہی“کی تباہی سے بچنے کیلئے بزرگ ایک ہی مجرب نسخہ بتاگئے ہیں کہ ”ماہی“ قید زوجیت میں آکربے ضرر ہوجاتا ہے۔ مگر وہ یہ بات بتانابھول گئے کہ اگرایک ہی انسان کے عقدمیں ایک سے زیادہ ”ماہی“بیک وقت قید ہوں تواُس انسان کو ساری زندگی ضربیں لگتی رہتی ہیں اور روز اُسے ایک نئی قیامت کاسامناکرناپڑتا ہے۔وہ ساری زندگی یہ دہائی دیتارہتا ہے کہ بجاہے کہ اللہ پاک قادر و عادل ہے مگر اُس کے جہان میں ”ماہی“ کا ”متاثرہ“روزایک نئی موت مرتا ہے۔اُس کی اوقات نیچ اوراوقات تلخ ہوجاتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ”ماہی“ اگرفرنگی ہوتوبڑا پُرکار ہوتا ہے اوراُسے ہماری چال بے ڈھنگی کرنے کیلئے فقط ایک لحظہ درکار ہوتا ہے۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ بعض اوقات ایک نسل کی زندگی کی شام ہوجاتی ہے مگر وہ ایک ساعت تمام نہیں ہوتی۔ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ”ماہی“ کے اسیرکاماضی اورحال سیاہ ہے تو مستقبل بھی تباہ ہے۔
(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں)
”ماہی اورتباہی“ تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
