”کورونا“وبا کی شدت کے دوران بہت سے ایسے لوگ بھی ”ماسک“ کامطالبہ کررہے تھے جن میں سے ہر ایک اگر اپنے چہرے پر چڑھے ”ماسک“اتار دیتا توشایدپوری قوم کی ضرورت پوری ہوجاتی۔اُن دنوں ”ماسک“کی فراہمی اتنا بڑا ”ٹاسک“تھاکہ بہت سے لوگ ”ماسک“ لگاکراس کی انجام دہی میں لگے ہوئے تھے۔اس مہم کے دوران لوگوں کویہ اندازہ بھی ہوا،نظر آئے،نہ آئے ہمارے ہاں ”ماسک“ بہرحال بہت سے لوگوں نے چڑھارکھے ہیں۔بہت سے لوگوں کے ”ماسک“،”ٹاسک“ کے دوران نمایاں ہوجاتے ہیں۔
بعض لوگوں کے ”ماسک،ٹاسک“ کی انجام دہی میں اُتر بھی جاتے ہیں اوربہت سے لوگ کسی ”ٹاسک“ کیلئے بہت سے ”ماسک“ چڑھالیتے ہیں۔ ”ماسک اورٹاسک“ کا یہ رشتہ ترقی پذیر بھی ہے اورتغیر پذیربھی ہے۔ کورونا“کے دنوں سے تو ”ماسک“ نظر آنے لگے ہیں ورنہ کافی عرصہ سے ہم ”تاریخ کے”دورماسک“ میں زندہ ہیں۔ہرآدمی کاچہرہ ”ماسک ذدہ“ہے۔
اکبر آلہ آبادی کو گلہ تھا کہ عورتوں کا پردہ مردوں کی عقل پرپڑ گیا ہے جبکہ بہت سے مرد وزن ساری زندگی ”ماسک“ لگائے لوگوں کی عقل پرپردہ ڈالنے کی ہرممکن کاوش کرتے رہتے ہیں۔ ”ماسک ذدہ“ لوگوں کا واحد ”ٹاسک“ خود کسی کا”گلو“ بننااورلوگوں کو ”اُلو“ بنانا ہوتا ہے۔خود کو”گلو“ بنانے کے چکر میں بعض اوقات وہ خود ”اُلو“ بن جاتے ہیں مگر اُن کی ذات پر چڑھا ماسک انہیں یہ حقیقت جاننے نہیں دیتا۔
منیرنیازی اگرآج کے دور میں ہوتا توشاید یہ کبھی نہ کہتے ”دریاکے پار اُترنے کے باوجود بھی ایک اوردریا کاسامناکرنا پڑتا ہے“ کیونکہ ہمارے ہاں اب دریا تو سوکھ چکے ہیں۔ہاں اُن کو یہ گلہ ضرورہوتا کہ ”ماسک“ کے پار بھی ”ماسک“ ہی ہوتے ہیں اورکسی کا چہرہ دیکھنے کی حسرت لیئے کئی لوگ عمر بھر ”ماسک“ ہی ”ماسک“ دیکھتے رہتے ہیں۔
”پروین شاکر“ نے ایسے بچوں کو چالاک کہا تھا جو دن کے وقت جگنو پکڑنے کی ضد کرتے ہیں اگر وہ آج کے دور میں ہوتیں اور اس بچے کی بات سن لیتی تو نہ جانے کیا کہتیں،جو ہر وقت یہی گاتا رہتا ہے-:
گزر رہی ہے عمر ماسکوں کے سائے میں
جی رہا ہوں میں شیطان کے ہمسائے میں
میرے ایک انتہائی قریبی دوست میرے ہیرو بھی ہیں۔وہ دفاع وطن کے لیے کام کرنے والی ایک ایسی ایجنسی کا انتہائی قابل فخر حصہ ہیں جس کے لوگ جان لینا اورجان دینا بچوں کاکھیل سمجھتے ہیں۔ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران آپ کو سب سے مشکل ٹاسک کون سا لگا؟ انہوں نے بڑے دُکھ کے ساتھ جواب دیا ڈاکٹر صاحب ”ٹاسک“ کوئی بھی مشکل نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات اپنے ہی لوگوں کے چہرے سے ”ماسک“ اتارنے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ کسی اور ”ٹاسک“ کا وقت ہی نہیں بچتا۔
انسان کو ہمیشہ سے خوب سے خوب تر کی جستجو رہی ہے لیکن بعض لوگوں کی یہ جستجو صرف خوب سے خوب تر ”ماسک“ کی حد تک ہوتی ہے۔وہ صرف اپنے چہرے پہ پڑے”ماسک“ بہتر کرنے کی تگ و دو میں عمر گزار دیتے ہیں۔ خود بھی خوارہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی خوار کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگ ”ماسک“،”ماسک“ کھیلتے اپنے آپ سے بھی ”ماسک“ ہوجاتے ہیں۔
غالب کہتے ہیں کہ انہوں نے لڑکپن میں مجنوں پر سنگ اٹھایاہی تھا کہ اپنا سریادآیا۔محکمہ صحت کے ملازمین بھی ”انسدادکورونامہم“ کے دوران بہت دفعہ ایسے مراحل سے گزرے۔ ایسے آدمی کو ”ماسک“ دیناجس کے اپنے چہرے پر ہزاروں ”ماسک“ ہوں کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔ یہ سوچ کرہی محکمہ صحت کے بہت سے لوگوں کی صحت تباہ ہوجاتی ہے۔
غالب تو فقیروں کا بھیس بدل کر تماشہ اہل کرم دیکھتے رہتے تھے جبکہ اُمت مسلمہ کے بہت سے راہزن راہبری کا ”ماسک“ چڑھا کراُمت کے ساتھ اتنی صفائی سے راہزنی کرتے ہیں کہ لوٹنے والے کو کوئی اندیشہ نہیں ہوتا اورلٹنے والے کو کبھی احساس نہیں ہوتا۔
اقبال کہتے ہیں کہ چند مخصوص آداب سیکھنے کے لیے عشق بنیادی شرط ہے۔ اگر طبیعت میں عشق کا مادہ نہ ہو تو وہ آداب آ ہی نہیں سکتے۔ ایسے ہی بہت سے لوگوں کے چہرے پر لگے ”ماسک“ دیکھنے کے لیے انتہائی غریب ہونا یا ان کے انتہائی قریب ہونا بہت ضروری ہے۔بعض لوگوں کے ”ماسک“ صرف اُن کا حبیب بن کر ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہردور میں غریب لوگ بارگاہ الہٰی میں یہی مناجات کرتے نظر آتے ہیں -:
یا رب اب تیری فردوس پہ میرا حق ہے
تو نے ہر دور کے صاحب ماسک سے مروایا ہے مجھے
ایک میک اپ آرٹسٹ کہتے ہیں کہ کسی کے چہرے پہ لگا ”ماسک“اتارنا ایک ایسا ”ٹاسک“ہے جو بظاہر ”نیرا“ بکواس نظر آتا ہے مگر جب آپ اس کوکرنا شروع کرتے ہیں تو آپ کو اس کی پیچیدگیوں کا اندازہوتاہے۔ بعض اوقات آپ کی تمام تر مہارت اکارت جاتی ہے اور ”صاحب ماسک“ کی”جے جے“ ہوجاتی ہے۔
ایک خاتون نہایت ہی دکھی لہجے میں اپنی عزیز ازجان سہیلی کو بتا رہی تھیں کہ لوگ ایسے گلہ کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورتیں پردہ نہیں کرتی۔میری تو ساری زندگی ایک ”ماسک“کے ساتھ گزر گئی۔ میرے والدین نے تو میری شادی ایک انسان کے ساتھ کی تھی مگر مجھے پہلے دن ہی یہ احساس ہوگیا کہ میں کسی انسان کے ساتھ نہیں ایک ”ماسک“ کے ساتھ جی رہی ہوں۔برسوں گزر گئے ہیں مگر وہ ”ماسک“میں خود سے الگ نہیں کرپائی۔میرے خیال میں یہ کہانی گھر گھر کی ہے۔
صوفیائے کرام کو اللہ تعالی نے انسانوں کے اندراوروقت سے ماورا جھانکنے کی صلاحیت دی ہوئی ہوتی ہے۔ ایک صوفی شاعر نے بہت پہلے کہہ دیا تھاکہ وہ اپنے دل کا حال کیسی کوکیسے سنا ئیں محرم راز ایک بھی نہیں ملتا بس ”ماسک“ ہی ”ماسک“ ملتے ہیں۔ ایک شاعرنے کہا تھا کہ اُن کی زندگی کشف و کرامات کی بہترین مثال ہے کیونکہ چلتے پھرتے مُردوں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ اگر اس مصرعے میں وہ ”مُردوں“ کی بجائے ”ماسک“کا لفظ استعمال کرتے تو”کورونا“ کے زمانے میں شعر کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جاتے۔
فیض صاحب نے کہا کہ جب تاج اتارے جائیں گے اور تخت اچھالے جائیں گے تب خلق خدا راج کرے گی۔ شاید فیض صاحب آج کے دور میں ہوتے تو یہ کہتے کہ جب لوگوں کے چہرے اوردلوں پرپڑے ”ماسک“ اتارے جائیں گے۔تب خلق خدا راج کرے۔
ایک شاعر نے بڑے دکھ سے کہا کہ چاہے کوئی صدیوں کا ہمسفربھی ہوتو اس کو راستہ بدلنے میں دیر بالکل نہیں لگتی لیکن اگر کسی انسان نے ماسک دو دن پہلے بھی لگایا ہو توبعض اوقات اس کو اُترانے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ کئی لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں ان گنت ماسک ہیں مگر صرف چندایک اُن کے پاس ہیں۔
پچھلے سال سے میری ذات کے دو خوبصورت ترین حصے قبرستان”ملوک شاہ“ بہاول پورمیں سپرد خاک ہیں۔میں روزانہ وہاں بڑے حوصلے اور وقار کے ساتھ جاتا ہوں۔ میرا حوصلہ مگر اُس وقت جواب دے جاتا ہے اور میری آنکھوں میں ساون کی جھڑی لگ جاتی ہے جب ایک مجذوب میری ”طیبہ“ کی قبر کے ساتھ اپنی جان ِحیات کی قبرکے سرہانے کھڑا ہوکر سینہ کوبی شروع کردیتا ہے۔ بھرائی ہوئی آواز میں یہ الفاظ سننے کوملتے ہیں -:
نہ ترے ماسک اُترے نہ اُترے میرے
دنیا میں چار سو اُتر آئے اندھیرے
(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر، چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں)
شکریہ نیوز ٹائم
”ٹاسک اور ماسک“
