• Mon. Jun 30th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

(مرگئے ہم توزمانے نے بہت کیا) ڈاکٹرعبدالقدیرخان تحریر : تبسم صباء کنیز (سادہ باتیں)

Oct 15, 2021

جب تک انسان کے پاس کوئی چیز ہوتی ہے تب اسے اس چیز کی قدر نہیں ہوتی پرجیسے ہی وہ چیز اس سے چھین جاتی ہے تو وہ اسے بہت یاد آتی ہے نا صرف یاد آتی ہے بلکہ اس کی اہمیت کاسہی اندازہ بھی اس چیز کے چھین جانے کے بعد ہوتا ہے۔یہی حال انسان کا ہے جب تک وہ زندہ ہوتا ہے کسی کو اس کی سہی قدر نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی موجودگی میں اس کی اہمیت کا سہی اندازہ ہوتا ہے پر اس کے اس دنیا سے جاتے ہی اس کے سارے گُن یاد آنا شروع ہوجاتے ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ مر کے دیکھو لوگ کندوں پہ نہ اُٹھا لیں تو کہنا یعنی لوگوں پر اپنی اچھائی ثابت کرنے کے لیے مرنا پڑتا ہے اور خاص طور پر پاکستان میں تو اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لیے مرنا بے حد ضروری ہے آپ اس کی مثال ڈاکٹر اے کیو خان ہی لے لیں،جی میں بات کر رہی ہوں ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی جس نے اپنی پوری زندگی اس قوم پہ نچھاور کر دی مگر اس قوم نے ان کے احسانات کے بدلے ان کو کیا دیا؟ قید،رسوائی،تنہائی اور بدنامی یہ و ہ سب تمغے ہیں جو پاکستانی قوم نے اُس محسن کو دیے جس نے اس قوم کا سر بلند رکھنے کے لیے کبھی اپنے اور اپنے ساتھیوں کے آرام کا خیال نہیں کیا بس اس انسان کو ایک ہی جستجوتھی کہ کس طرح پاکستان کے دفاع کوناقابلِ تسخیر بنایا جائے۔یکم اپریل 1936؁ء کوبھارت کے شہربھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے ثابت کردیا کہ جب لگن سچی ہوتو قدرت بھی ساتھ دیتی ہے اور پھر وسائل کی کمی بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی،انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں اپنے کام کو انجام تک پہنچایا،آج پاکستان اسلامی دنیا کی واحد سپرپاورایٹمی طاقت ہے۔اس کاسہرا ڈاکٹر اے کیو خاں اور ان کے ساتھیوں کے سر ہے،28 مئی1998؁ء کوچاغی کے مقام پر 6 ایٹمی دھماکے کر کے جس طرح پاکستان نے یہ ثابت کیا کہ اب اس کادفاع ناقابلِ تسخیر ہے وہاں یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس دھرتی کی سپوت کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ رقصاں رہتی تھی وہ ایک حساس دل کے مالک تھے یہی وجہ تھی کہ 1971؁ء کے واقع کے بعد وہ پاکستان کو مضبوط اور ناقابلِ تسخیربناناچاہتے تھے وطن کے محبت ان کے رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے تھی اور وہ دشمن کے عزائم سے بھی خوب واقف تھے،لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جس شخص نے ہمارے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اپنا مستقبل قربان کردیا،پُرکشش نوکری چھوڑی اور آرام دہ زندگی کوخیرآباد کہہ دیا،وطن عزیز میں سہولتوں کمی کے باوجود دل چھوٹا نہ کیا،افسرشاہی کے رویے بھی ان کے عزم کو متزلزل نہ کرسکے،کم معاوضہ ان کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکا، بعض ساتھیوں کے حسدانا رویے بھی ان کومایوس نہ کر سکے یہاں تک کہ عالمی سطح پر کی جانے والی کردارکشی بھی ان کے قدم نہ روک سکی،اسی ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو ہم نے گھر پر ہی قید کردیا،جس شخص نے اپنی پوری زندگی ہمارے لیے عزت کے دروازے کھولنے پرلگا دی اسی شخص پر ہم نے آذادی کے دروازے بند کردے،جس شخص کی وجہ سے آج ہم دنیا کے سامنے سر اُٹھا کرچلتے ہیں اُسے ہی وقت کے حکمرانوں کے سامنے سرجھکا کربیٹھنے پرمجبور کردیااور وہ وطن عزیز کی اعلیٰ عدالتوں اپنی رہائی کاپروانہ حاصل کرنے کے لیے تاریخ پر تاریخ لیتا رہاڈاکٹرعبدالقدیرخان نے آخری مرتبہ2019 ؁ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنی رہائی کے درخواست دائر کی جس کی تین برسوں میں صرف پانچ بار سماعت ہوسکی،ساری عمر اس ملک کی خدمت کرنے والے کے آخری ایام پاکستانی عدالتوں کا منہ دیکھتے گزر گئے مگر عدالت کی طرف سے ان کی رہائی کا پروانہ نہ ملا،وہ ایک سچے مسلمان اورعاشق رسولﷺ تھے اس لیے اللہ پاک سے بھی ان کی اس قدر تزلزل اوربے بسی نہیں دیکھی گئی تو جب دنیا کی عدالت سے رہائی کاپروانہ نا ملا توعرشِ معلیٰ سے ان کی رہائی کا پروانہ بھیج دیا گیا،دفاعِ وطن کوناقابلِ تسخیر بنانے کے دن رات ایک کرنے والا یہ سپوت بالآخر10نومبر2021کو دھرتی کی گود میں جاسویا،اس کی موت کے ساتھ ہی اسے پاکستانی روایات کے مطابق کندوں پر اُٹھالیا گیا جن کوان کی زندگی میں ان کا نام بھی یاد نہیں تھا ان کی موت کے ساتھ ہی ان کی خوبیاں یاد آنے لگیں ہیں سوشل میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا یا پھر الیکٹرونک میڈیا سب پر ان کو اخراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے ان کے کام کو سرہا جارہا ہے ان کی قبر پر پھولوں کی ڈھیرلگائے جارہے ہیں پر اب اس سب کا کیا فائدہ احسان فراموشی کا داغ تو یہ سب کرنے سے نہیں دُھلے گا،اب سوال یہ ہے کہ کیا زندہ قومیں اپنے محسنوں کے احسانوں کابدل اسی طرح دیتی ہیں اگر ہاں تو آئندہ کسی سے احسان کی توقع مت رکھیں اور اگر آپ کا جواب نا میں ہے تو بتائیں ڈاکٹر عبدالقدیرخان جیسے محسنوں کے ساتھ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟یہ پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے اللہ ہم سب کا حامی وناصر۔