نثار تیری چہل پہل پہ ہزار عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی توخوشیاں منع رہے ہیں
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ:ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔یہ مہینہ فضیلتوں اور سعادتوں کا مجموعہ ہے کیونکہ وہ ذات پاک جن کو اللہ کریم نے تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا وہ عظمتوں والے نبی،خاتم النبیین،محمد مصطفیٰ ﷺ اسی ماہ مبارک میں دنیا میں تشریف لائے۔گویا اس مہینے کو سب فضیلتیں اور سعادتیں نبی مکرم ﷺکی ولادت کے صدقے نصیب ہوئی ہیں۔نسلِ انسانی کو اللہ پاک کی طرف سے جتنی بھلائیاں عطاء ہوئیں وہ سب اسی مہینے میں میں آنے والی مبارک ہستی کے طفیل عطاء ہوئیں،ارشاد نبوی ﷺ ہے آقا کریم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے تمام مخلوق میں سے بنی کنانہ کو چُناپھر بنی کنانہ میں سے بنی قریش کو چُنا اور پھر بنی قریش میں سے بنی ہاشم کو چُنا،بنی ہاشم میں سے مجھے اور بے شک مجھے اعلیٰ نسب میں رکھاگیا۔
حضرت امام زکریا بن محمد بن محمود قزوینی فرماتے ہیں:
”ھُوَشَھْرُُ مُّبَارَکُُ فَتَحَ اللّٰہُ فِیْہِ اَبْوَابَ الْخَیْرَتِ وَاَبْوَابَ ا لسَّعَادَتِ عَلَی الْعَلَمِیْنَ بِوُجُوْدِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنِ ﷺ وَ الثَانِی عَشَرَ مِنْہُ مَوْلِدُ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ۔“
ترجمہ:یعنی یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ پاک نے حضورِ مکرم ﷺ کے وجود مسعود کے صدقے سارے جہان والوں پربھلائیاں اور سعادتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں اسی مہینے کی بارہ تاریخ کو رسول اللہ ﷺ کی ولادت ہوئی۔
”ربیع الاول“ کہنے کی وجہ: تکوینی لحاظ سے انسان کے کمال میں مختلف قسم کا اثر رکھنے والے لمحات،دن،رات اور مہینوں سے ہٹ کرکچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں کہ جن کی اہمیت بہت ذیادہ ہوتی ہے اور بعض لمحات اور ایام ایک خاص قسم کے تقدس کے مالک ہوتے ہیں،اولیاء اللہ نے انہی میں سے ماہ ربیع الاول میں نبی مکرم ﷺ کی آمد کو ماہِ ربیع الاول کا ایک خاص واقعہ قرار دیاہے اور کہا ہے کہ اس مبارک واقعہ کی وجہ سے ہی اس مہینے کو بہار کے مہینے کا نام دیا گیاہے۔بنی اکرم،نورِ مجسم ﷺ کی پیدائش کی دجہ سے ہی یہ مہینہ دوسرے مہینوں سے افضل اور ممتاز ہوا،
ربیع موسمِ بہار کو کہتے ہیں اہل عرب موسم بہار کے ابتدائی زمانے کو ”ربیع الاول“ کہتے تھے اسی میں کُھبی(Mushroom) اور پھول پیدا ہوتے تھے اور جس وقت پھلوں کی پیدا وار ہوتی تو ان ایام کو ربیع الاول کہتے تھے۔جب مہینوں کے نام رکھے گئے تو صفر کے بعد والے دو مہینوں کو انہی دو موسموں کے نام پر ربیع الاول اور ربیع الآخر کا نام دیا گیا۔ان دو مہینوں کو ربیع کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں لوگ ارتباع کرتے یعنی گھروں میں ٹھہرتے تھے۔چونکہ ان دونوں مہینوں میں خوشحالی اور فراغی کی وجہ سے عرب کے لوگ گھروں میں ہی قیام کرتے تھے اس لیے انہیں ربیع کہا جانے لگا۔
ربیع الاول کی عظمتوں کی وجہ:ربیع الاول کی عظمتوں کے کیا کہنے! اسے کائنات کی سب سے عظیم اور شان والی ہستی ہمارے پیارے نبی ﷺ سے نسبت ہے اسی نسبت نے اس مہینے کی شان بڑھادی اُ س تاریخ کو رشکِ الیلۃ قدر بنا دیا جس میں آپ ﷺ کی ولادت ہوئی وہ تاریخ مسلمانوں کے لئے عیدوں کی بھی عید ہے،یقینا اگرحضورِ انور ﷺ جہاں میں شاہ بحروبر بن کر جلوہ گر نہ ہوتے تو کوئی عید،عید نہ ہوتی،نہ کوئی شب،شب بارات۔بلکہ کون ومکاں کی تمام تر رونق اور شان اس جانِ جہان،محبوبِ رحمٰن ْ کے قدموں کی دھول کا صدقہ ہے۔اس مبارک مہینے کی بارہویں تاریخ بہت ہی سعادتوں اور عظمتوں والی ہے کیونکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ولادت باسعادت 12 ربیع الاول بروز پیر ہوئی
پیر کے دن کی اہمیت: سید المرسلین ﷺ کی ولادت کا دن ہونے کے ساتھ ساتھ یہ دن اور بھی کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ پیر کے دن پیدا ہوئے اور پیر کے دن ہی آپ ﷺ کی نبوت کا ظہور ہوا،مکہ مکرمہ سے ہجرت کرتے ہوئے پیر کے دن نکلے،پیر کے دن مدنیہ منورہ میں داخل ہوئے پیر کے دن ہی وصالِ ظاہری ہوا اور آپ ﷺ نے پیر کے دن ہی حجر اسود کو نصب فرمایا۔
وقت ولادت: مشہور محدث حافظ محمد بن عبداللہ المعروف ابن ناصرالدین دمشقی نقل فرماتے ہیں:”اَنَّہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وُلِدَ حِیْنَ طَلَعَ الْفَجْرُ عَلَی الصَّحِیْحِ وَصَحَّیحِ“ یعنی صحیح یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ولادت طلوع فجر کے وقت ہوئی اور اسی کو محدثین نے صحیح قرار دیا۔
شب قدر سے افضل رات:علماء اسلام نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ جس رات سید عالم ﷺ کی ولادت باسعادت ہو ئی وہ شب قدر سے بھی افضل ہے۔جیسا کہ حضرت شیخ سید نا محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:بے شک سرورِعالم ﷺ کی ولادت کی رات شب قدر سے بھی زیادہ افضل ہے۔
شاہ بخاریحضرت علامہ شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے شب ولادت کے لیلۃ القدر سے افضل ہونے کی وتین وجوہات بیان کی ہیں:
(1) شب ولادت آپ ﷺ کے ظہور کی رات ہے جب کہ لیلۃالقدر آپ ﷺ کو عطاکی گئی ہے۔اس عتبار سے شب ولادت لیلۃالقدر سے افضل ہے۔
(2) شب قدر نزول ملائکہ کی وجہ سے مشرف ہے اور شب ولادت حضور اکرم ﷺ کے ظہور کی وجہ سے معظم ہے اور جس ہستی کی وجہ سے شب ولادت فضیلت والی ہے یقینا وہ ملائکہ سے افضل ہیں لٰہذا شب ولادت،لیلۃ القدر سے افضل ہے۔
(3)للیۃ القدر کی برکتیں اور انعامات سے امت مصطفٰے ہی فیضیاب ہوتی ہے مگر شب ولادت میں حضور سرورِ انبیاء ﷺ رحمۃ اللعالمین بن کر آئے اور یہ نعمت تمام مخلوق کے لئے ہے،تو شب ولادت نفع کے اعتبار سے زیادہ عام ہوئی اس لئے یہ شب قدر سے افضل ہے۔حضرت علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمدمرزوقی تلبسانی رحمۃ اللہ علیہ شب ولادت مصطفٰی کے شب قدر سے افضل ہونے پر”جَنَی الْجَنَّتَیْنِ فِیْ شَرَفِ اللَّیْلَتَیْنِ“ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں دونوں راتوں کے فضاہل اور شب ولادت کے افضل ہو نے پر دلائل بیان فرمائے ہیں۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہو ں ِ تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
ربیع الاول کی نوافل:اللہ کریم کا قرب پانے اورا سکی رضا حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ نوافل بھی ہیں،اسی لئے بزرگانِ دین فرائض وواجبات کے ساتھ ساتھ نوافل کی کثرت کیا کرتے تھے،اوقات مکروہہ کے علاوہ آدمی جب چاہیے نوافل پڑ سکتا ہے،کچھ مخصوص نوافل بزرگانِ دین نے رحمۃ اللہ علیھم نے ذکر کئے ہیں جنہیں پڑھنے سے دین ودنیا کے ڈھیروفوائد حاصل ہوتے ہیں انہیں میں سے رنیع اول کے نوافل بھی ہیں جو درج ذیل ہیں:
(1) ربیع الاول کی پہلی رات نماز مغرب کے بعد دو رکعت نفل اس طرح پڑھئے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد تین بار سورۃ اخلاص کی تلاوت کیجئے اور اسلام کے بعد دو سو مرتبہ یہ درود شریف پڑھئے:اَللّٰھُمَّ صَلِّیْ عَلٰی مُحَّمَّدِِ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدِِوَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ بِرَحْمَتِکَ یَآ اَرْحَمِالرَّ حِمِیْن۔
(2)ربیع الاول کی تیسری تاریخ کو چار رکعت نماز نفل اس طرح پڑھئے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد آیۃ الکرسی،سورۃ طہٰ،اور سورۃ یٰسین کی تلاوت کیجئے اور اس کا ثواب نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں پیش کیجئے۔
(3)بارہوں تاریخ کو حضور نبی کریم ﷺ کی روحِ پاک کو ہدیہ پہنچانے کی نیت سے بیس رکعت نفل پڑھئے،ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعداکیس مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھئے۔
بارہ ربیع الاول کا روزہ:بارہ ربیع الاول کے دن روزہ رکھئے کہ حضور ﷺ کی ولادت کے دن روزہ رکھنا اللہ پاک کی نعمت کا شکر ادا کرنا ہے اور اس میں زیادہ اجروثواب ہے۔ خود نبی کریم ﷺ ہر پیر کو روزہ رکھ کر اپنا یومِ ولادت مناتے تھے جیسا کہ سیدنا حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:بارگاہ رسالت میں پیر کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ارشاد فرمایا!اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔سیدابن طاووس اپنی کتاب”اقبال“ میں نبی مکرم ﷺ کی پیدائش کے دن کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نصرانی اور مسلمانوں کا ایک گروہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے دن کی بہت تکریم کرتے ہیں لیکن مجھے ان پر تعجب ہوتاہے کیونکہ وہ آنحضرت ﷺ کے پیدائش کے دن کی تعظیم نہیں کرتے جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بہت بلند مرتبہ ہیں اور ان سے بڑھ کر کہیں ذیادہ فضیلت رکھتے ہیں۔نبوت کی تیرہوں سال بارہ ربیع الاول کی رات کو ہی نبی مکرم ﷺ کو اللہ پاک کی طرف سے ہجرت مدینہ کا حکم ہوا اس وقت آپ کے پاس عرب کے بہت سے لوگوں کی امنتیں تھیں جوآپ ﷺنے حضرت علیؓ کے حوالے کئی اور فرمایا کہ صبح یہ لوگوں کوواپس کر کے میرے پیچھے آ جانا یہاں پر ایک امان افروز بات یہ ہے کہ حضرت علیؓ سے بعد میں جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا کبھی آپ کو اپنی زندگی کی یقین ہوا تو حضرت علیؓ نے فرمایا”پوری زندگی میں صرف ایک رات جس رات نبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا تھا کی صبح یہ امانتیں لوگوں کے حوالے کر کے میرے پیچھے آجانا اس رات مجھے یقین تھا کہ میں صبح زندہ اُٹھوں گا“
بعض لوگ بارہ ربیع الاول کو کاروبار سے چھٹی کرتے ہیں اور اس دن کاروبار کرنا حرام تصور کرتے ہیں تو یہ غلط ہے اس سے متعلق شریعت میں کوئی حکم موجود نہیں اس دن کاروبار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
تحریر: تبسم صباء کنیز فیضان ِرَبِیْعُ الْاَوّل
