جب تک انسان کے پاس کوئی چیز ہوتی ہے تب اسے اس چیز کی قدر نہیں ہوتی پرجیسے ہی وہ چیز اس سے چھین جاتی ہے تو وہ اسے بہت یاد آتی ہے نا صرف یاد آتی ہے بلکہ اس کی اہمیت کاسہی اندازہ بھی اس چیز کے چھین جانے کے بعد ہوتا ہے۔یہی حال انسان کا ہے جب تک وہ زندہ ہوتا ہے کسی کو اس کی سہی قدر نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی موجودگی میں اس کی اہمیت کا سہی اندازہ ہوتا ہے پر اس کے اس دنیا سے جاتے ہی اس کے سارے گُن یاد آنا شروع ہوجاتے ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ مر کے دیکھو لوگ کندوں پہ نہ اُٹھا لیں تو کہنا یعنی لوگوں پر اپنی اچھائی ثابت کرنے کے لیے مرنا پڑتا ہے اور خاص طور پر پاکستان میں تو اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لیے مرنا بے حد ضروری ہے آپ اس کی مثال ڈاکٹر اے کیو خان ہی لے لیں،جی میں بات کر رہی ہوں ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی جس نے اپنی پوری زندگی اس قوم پہ نچھاور کر دی مگر اس قوم نے ان کے احسانات کے بدلے ان کو کیا دیا؟ قید،رسوائی،تنہائی اور بدنامی یہ و ہ سب تمغے ہیں جو پاکستانی قوم نے اُس محسن کو دیے جس نے اس قوم کا سر بلند رکھنے کے لیے کبھی اپنے اور اپنے ساتھیوں کے آرام کا خیال نہیں کیا بس اس انسان کو ایک ہی جستجوتھی کہ کس طرح پاکستان کے دفاع کوناقابلِ تسخیر بنایا جائے۔یکم اپریل 1936ء کوبھارت کے شہربھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے ثابت کردیا کہ جب لگن سچی ہوتو قدرت بھی ساتھ دیتی ہے اور پھر وسائل کی کمی بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی،انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں اپنے کام کو انجام تک پہنچایا،آج پاکستان اسلامی دنیا کی واحد سپرپاورایٹمی طاقت ہے۔اس کاسہرا ڈاکٹر اے کیو خاں اور ان کے ساتھیوں کے سر ہے،28 مئی1998ء کوچاغی کے مقام پر 6 ایٹمی دھماکے کر کے جس طرح پاکستان نے یہ ثابت کیا کہ اب اس کادفاع ناقابلِ تسخیر ہے وہاں یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس دھرتی کی سپوت کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ رقصاں رہتی تھی وہ ایک حساس دل کے مالک تھے یہی وجہ تھی کہ 1971ء کے واقع کے بعد وہ پاکستان کو مضبوط اور ناقابلِ تسخیربناناچاہتے تھے وطن کے محبت ان کے رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے تھی اور وہ دشمن کے عزائم سے بھی خوب واقف تھے،لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جس شخص نے ہمارے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اپنا مستقبل قربان کردیا،پُرکشش نوکری چھوڑی اور آرام دہ زندگی کوخیرآباد کہہ دیا،وطن عزیز میں سہولتوں کمی کے باوجود دل چھوٹا نہ کیا،افسرشاہی کے رویے بھی ان کے عزم کو متزلزل نہ کرسکے،کم معاوضہ ان کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکا، بعض ساتھیوں کے حسدانا رویے بھی ان کومایوس نہ کر سکے یہاں تک کہ عالمی سطح پر کی جانے والی کردارکشی بھی ان کے قدم نہ روک سکی،اسی ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو ہم نے گھر پر ہی قید کردیا،جس شخص نے اپنی پوری زندگی ہمارے لیے عزت کے دروازے کھولنے پرلگا دی اسی شخص پر ہم نے آذادی کے دروازے بند کردے،جس شخص کی وجہ سے آج ہم دنیا کے سامنے سر اُٹھا کرچلتے ہیں اُسے ہی وقت کے حکمرانوں کے سامنے سرجھکا کربیٹھنے پرمجبور کردیااور وہ وطن عزیز کی اعلیٰ عدالتوں اپنی رہائی کاپروانہ حاصل کرنے کے لیے تاریخ پر تاریخ لیتا رہاڈاکٹرعبدالقدیرخان نے آخری مرتبہ2019 ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنی رہائی کے درخواست دائر کی جس کی تین برسوں میں صرف پانچ بار سماعت ہوسکی،ساری عمر اس ملک کی خدمت کرنے والے کے آخری ایام پاکستانی عدالتوں کا منہ دیکھتے گزر گئے مگر عدالت کی طرف سے ان کی رہائی کا پروانہ نہ ملا،وہ ایک سچے مسلمان اورعاشق رسولﷺ تھے اس لیے اللہ پاک سے بھی ان کی اس قدر تزلزل اوربے بسی نہیں دیکھی گئی تو جب دنیا کی عدالت سے رہائی کاپروانہ نا ملا توعرشِ معلیٰ سے ان کی رہائی کا پروانہ بھیج دیا گیا،دفاعِ وطن کوناقابلِ تسخیر بنانے کے دن رات ایک کرنے والا یہ سپوت بالآخر10نومبر2021کو دھرتی کی گود میں جاسویا،اس کی موت کے ساتھ ہی اسے پاکستانی روایات کے مطابق کندوں پر اُٹھالیا گیا جن کوان کی زندگی میں ان کا نام بھی یاد نہیں تھا ان کی موت کے ساتھ ہی ان کی خوبیاں یاد آنے لگیں ہیں سوشل میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا یا پھر الیکٹرونک میڈیا سب پر ان کو اخراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے ان کے کام کو سرہا جارہا ہے ان کی قبر پر پھولوں کی ڈھیرلگائے جارہے ہیں پر اب اس سب کا کیا فائدہ احسان فراموشی کا داغ تو یہ سب کرنے سے نہیں دُھلے گا،اب سوال یہ ہے کہ کیا زندہ قومیں اپنے محسنوں کے احسانوں کابدل اسی طرح دیتی ہیں اگر ہاں تو آئندہ کسی سے احسان کی توقع مت رکھیں اور اگر آپ کا جواب نا میں ہے تو بتائیں ڈاکٹر عبدالقدیرخان جیسے محسنوں کے ساتھ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟یہ پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے اللہ ہم سب کا حامی وناصر۔