قرآن مجیدفرقانِ حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے”اے نبی (ﷺ) ہم نے نہیں بنا کر بھیجاآپ کومگرتمام دُنیا کے لئے رحمت“۔ربیع الاول کی ان مبارک ساعتوں کوسلام جن میں نبی مکرم، رحمت عالم،نورِ مجسم،شفیع امم،حضرت محمد ﷺ اس جہانِ فانی میں رحمت اللعالمین بن کرتشریف لائے،سرکارِ دوجہاں کی آمد کے ساتھ ہی زمین وآسمان پُرنور ہوگئے،ہر طرف خوشی کی لہردوڑ گئی سب چرندپرند،جنوں وبشر سب خوشی سے جھوم اُٹھے اور ایسا ہوتا کیوں نا؟ آخرکارحادیِ برحق، کا ئنات کی محبوب ترین ہستی،اللہ کے پیارے حبیب حضرتِ محمد مصطفیٰ،احمدِ مجتبیٰ ﷺ تشریف لے آئے تھے۔ اللہ پاک نے جابجا قرآن پاک میں آپ ﷺ کی آمد کوعنوانات کی شکل دی ہے کہیں فرمایا کہ ”وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کوہدایت کے ساتھ“ کہیں فرمایا”اے نبی(ﷺ) ہم نے آپ (ﷺ) کو شاہد بنا کر بھیجا“ دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ”اور ہم نے ان پر احسان فرمایا کہ آپ کو ان میں بھیجا“۔ قرآن پاک میں ارشادِ خداوندی ہے”بے شک رسول (ﷺ) کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے“۔خود حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا”مجھے حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے معبوث فرمایاگیا“۔اور آپ ﷺ نے اپنی اس بات پر پوری طرح عمل کر کے بھی دیکھایا،حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں دس سال نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں رہا پر آپ نے نہ کبھی مجھ پر غصہ کیا اور نہ ہی کبھی مجھے بُرا بھلا کہا۔آپ ﷺ کا اخلاق اتنا اچھا تھا کہ دوست تو دوست دشمن بھی آپ ُ ﷺ کی تعریف کیے بنا نہیں رہ پاتے۔ایمانتداری کا یہ عالم تھا کہ صحابہ تو صحابہ مشرک بھی قسم کھاتے کہ آپ سے بڑھ کر کوئی ایمانتدار اہل عرب میں تو کیا پوری روح زمین پہ نہیں۔بات کرتے تولگتا کہ منہ سے پھول جھڑتے ہیں،آپ ﷺ نے اپنی پوری زندگی کسی کو گالی نہیں دی،فرمایا ”اگر کوئی کسی کو گالی دیتا ہے تو وہ دینے والے کے نسب کی طرف لوٹ کرآتی ہے۔حضور نبی مکرم،نور مجسم،رحمت عالم،شفیع امم ﷺ نا صرف انسانوں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا درس دیتے،آپ ﷺ نے انسان تو انسان کبھی جانور کو بھی تکلیف نہ پہنچائی،آپ ﷺ نے فرماکہ جانوروں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،ایک بار آپ ﷺ ایک باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ آپ کودیکھ کر بلبلانے لگاآپ نے اس کے مالک کوبلایا اور فرمایا اسے بھوکا نہ رکھو اس مے معاملے میں اللہ سے ڈرو،۔آپ ﷺنے اسوء حسنہ کے بارے میں جوکچھ ارشاد فرمایا پہلے خود اس پہ عمل کر کے دکھایا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر محمد رسول اللہ کی بجائے محمد بن عبداللہ لکھے جانے پہ راضی ہوجانا،اپنے سب سے پیارے چچا حضرت امیرحمزہ کے قاتل وحشی کومعاف کردینا،ہندہ کوعفودرگزر سے نوازنا،اپنے اوپرکوڑاکرکٹ پھینکنے والی عورت کی تیماری داری کرنا،اپنے راستے میں کانٹے بچھانے والوں کومعاف کردینا،اپنے جانی دشمن عکرمہ کے بیٹے کے نادم ہوکربارگاہِ رسالت میں پیش ہونے پر کمال شفقت سے پیش آنا،طائف کے مشرکین کی سنگ باری سے زخمی ہونے پر بدعا کی بجائے”اے اللہ یہ مجھے نہیں جانتے انہیں معاف فرما انہیں ہدایت عطا فرما ان کی آنے والی نسل میں بہت سے لوگ اسے ہوں گے جوایمان لائیں گے“کے الفاظ کے ساتھ ان کے لیے دعاکرنا،جنگ میں یتم بچوں،بیوہ عورتوں اوربوڑھوں سے حسن سلوک کی تلقین،اور مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کی تاکید فرمانا،آپ کے خلقِ عظیم کی وہ مثالیں ہیں جن کی نظر تاریخ انسانی دینے سے قاصر ہیں۔بنی آخرالزماں ﷺ کی زندگی ہم سب کے لیے ایک ایسا نمونہ ہے جس پہ عمل کرکے ہم نہ صرف دنیابلکہ آخرت کی کامیابی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔سورۃ احزاب میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ”حقیقت میں تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ (کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہ(حیات)ہے،ہر اس شخص کے لیے جواللہ سے ملنے اور یومِ آخرت کی امید رکھتاہے اور اللہ کاذکر کثرت سے کرتا ہے“۔اس آیت مبارکہ میں آپ ﷺ کی حیات طیبہ کوبہترین نمونہ قرار دیاگیاہے۔آپ ﷺ کے قول وفعل میں کبھی تضاد نہیں تھا آپ ﷺ جوبولتے اس پرخود بھی عمل کر کے دیکھاتے۔تاکہ لوگوں پر کوئی حجت باقی نا رہے۔سیدنا ابوبکرصدیق ؓ فرماتے ہیں کہ بنی مکرم ﷺ عرب کی حیا دار لڑکی سے بھی کہیں ذیادہ حیا والے تھے جب بھی آپ ﷺ کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو آپ ﷺ کی چہرے مبارک کا رنگ بدل جاتا جس سے ہمیں پتہ چل جاتا کہ یہ بات آپﷺ کوپسند نہیں،آپ نے تقریباََ سترہ جنگوں میں خود بھی حصہ لیا مگر کبھی خود کسی کا ایک قطرہ خون نہیں بہایا،ہمیشہ بھائی چارے اور امن کا درس دیا،فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کااعلان اور ہجرت کی رات شب خون مارنے والوں کومعاف کردینا،اپنی ذات کی لیے کسی سے بغض نہ رکھنا یہ صرف آپ ﷺ کا ہی انفرادی خاصہ تھا،ساری زندگی دشمنوں کے بیچ رہ کرمسکرانے کا ہنر اگر کسی نے سیکھنا ہے تواس کے لیے ہمارے پیارے بنی ﷺ سے بڑھ کر کوئی رول ماڈل ہوہی نہیں سکتا، اتنی روشن مثالوں اور اسے رول ماڈل کے ہوتے ہوئے بھی دنیا میں مسلمان سب سے پیچھے کیوں ہیں کیا کبھی سوچنے کی زحمت کی ہم نے؟۔جب تک مسلمانوں نے حضور ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کواپنائے رکھا وہ زمانے میں معزز رہے مگر جیسے ہی ہم نے ان راستوں سے روگردانی کی پسماندگی اور تزلیل ہمارا مقدربن گئی۔جتناا علیٰ اخلاق ہمارے پیارے نبی ﷺ کا تھا اس کی مثال چراغ لے کرڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ہماری نجات صرف اور صرف اسوہ رسولﷺ پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہے۔علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا ہے،
ّؔوہ معزز تھے زمانِ میں مسلمان ہوکر تم خوار ہو تاریکِ قرآن ہو کر
وہ علم کے موتی وہ کتابیں اپنے اباء کی جودیکھیں ان کو یورپ میں تودل ہوتاہے سیپارا
اللہ ہم سب کا حامی وناصر۔
(اُسوء حسنہ نبی رحمت ﷺ) تحریر: تبسم صباء کنیز (سادہ باتیں)
