زندگی اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا انمول تحفہ ہے اور اس تحفے کی سہی قدرتبھی ممکن ہے جب انسان صحت مند ہو ایسے تو نہیں کہاگیا کہ ”تندرستی ہزار نعمت ہے“۔آج کل دنیا میں ایک جان لیوا بیماری بہت عام ہورہی ہے اور ہے کینسر،یہ بہت جان لیوا مرض ہے اور ہمارے ہاں اکثر اس کی تشحیص ہونے سے پہلے ہی وہ انسان موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے یا تو مرض کا پتہ ہی نہیں چلتا اور اگر چلتا بھی ہے تو تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔عورتوں کو لاحق ہونا والا بریسٹ کینسر اس کی سب سے خطرناک قسم ہے اس کی تشخیص بھی کبھی کبھار ہی ہوپاتی ہے۔
اس وقت بریسٹ کینسر کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ڈبلیوایچ او کے مطابق 2011 ء میں دنیابھرمیں تقریباََ پانچ لاکھ عورتوں کی موت بریسٹ کینسر سے ہوئی،دنیا میں ہونے والے کینسر میں اب بریسٹ کینسر سرفہرست ہے مگر ہمارے ہاں ابھی اس کے بارے میں شعوروآگہی کی راہ بہت لمبی ہے۔میڈیاپر بھی اس کے بارے میں بہت سے اشتہارات دیکھائے جاتے ہیں لیکن ہمارے لوگ یہ اشتہارات دیکھناپسند نہیں کرتے اور اسے بے حیائی تصور کرتے ہیں اس سے متعلق خبروں کونظرانداز کرتے ہیں اور اس کے بارے میں کوئی بات سُننا گوارہ نہیں کرتے،یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی پہلی سٹیج پرتشخیص 4 فیصد سے بھی کم ہے،آج پاکستان میں ہر 9 میں سے ایک خاتون کو بریسٹ کینسر کا خطرہ ہے،پاکستان میں بریسٹ کینسر سے سالانہ تقریباََ40ہزار اموات ہوتی ہیں،ملک بھر میں تقریباََ 90 ہزار بریسٹ کینسر کے کیسزز رپورٹ ہوتے ہیں بروقت تشخیص سے اس موذی مرض سے جان بچنے کے چانسزز 90 فیصد ہیں۔
مرض کی تشخیص نہ ہونے اور شرح اموات ذیادہ ہونے کی وجوہات:ہمارے ہاں بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص نہ ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں،مثلاََ عورتیں فطری شرم وحیا کی وجہ سے سینے میں ہونے والے درد یا کسی بھی علامت کا اس وقت تک ذکر نہیں کرتیں جب تک وہ ناقابلِ برداشت نہ ہوجائے اُن کی کہنا ہوتا ہے کہ وہ کسی غیر کواپناجسم نہیں دیکھا سکتی حالانکہ اگر دیکھا جائے تو بیماری کی صورت میں غیر محرم کو جسم کامتاثرہ حصہ دیکھانے کی اجازت تواللہ پاک نے بھی دی ہے،اس کی وجہ عدم توجہی بھی ہے ہمارے ہاں عموماََ عورتیں سینے وغیرہ میں گھلٹی بن جانے ہا کچھ غیرمعمولی تبدیلی محسوس ہونے پہ کچھ خاص توجہ نہیں دیتیں ان کی خیال ہوتا ہے کہ یہ جسمانی تبدیلیوں کی وجہ سے ہیں اور وقت کے ساتھ خود ہی ٹھیک ہوجائیں گی ہماری دادیاں نانیاں کبھی ان کو جوانی کے جوش سے تشبہی دیتی ہیں کبھی بچوں کے دودھ پینے اور کبھی ماں کے بچے کو دودھ ناپلانے کے ساتھ جوڑتی ہیں اور کبھی ان کے خیال میں بڑھاپے کی علامت سمجھی جاتی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔اس مرض میں شرح اموات ذیادہ ہونے کی ایک بڑی وجہ اہلِ خانہ اور خاندان والوں کی مریض میں عدم توجہ بھی ہے کیونکہ ان کے خیال میں مریضہ نے بچنا تو ہے نہیں تو پھر اس پرپیسے ضائع کیوں کیے جائیں ان کے خیال میں یہ لاعلاج مرض ہے ایسے میں شوہر پہلی بیوی کے علاج پر پیسے خرچ کرنے اور توجہ دینے کی بجائے دوسری شادی کی طرف مائل ہوجاتا ہے خاندان والے بھی صرف اس پر ترس کھاتے ہیں اور اللہ پاک سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا مشورہ دیناشروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے مریضہ میں زندہ رہنے کی امید ختم ہوجاتی ہے اور وہ یقینی موت کے اورقریب ہوجاتی ہے،حالانکہ ایسی حالت میں مریض کوذیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کے اندر زندہ رہنے کی خواہش پیدا کر کے اس کے اندر بیماری سے لڑنے کاحوصلہ پیدا کیا جاسکے جو اس وقت اس کے لیے سب سے ذیادہ ضروری ہوتاہے۔اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے ملک میں اس کا انتہائی مہنگا علاج بھی ہے وسائل کی کمی کی وجہ سے بھی اکثر لوگ علاج نہیں کرواپاتے۔
علامات: پستان کے سائز کا غیر معمولی طور پربڑھ جانا،ایک طرف کاپستان کا چھوٹا اور دوسری طرف کا بڑا ہوجانا،غیرمعمولی سوجن کا ہوجانا، گھلٹی یعنی ڈِپ کا بننا،پستان کا سخت ہوجانا،نپل سے خون یا رطوبت کانکلنا، بلاوجہ شدید درد کا ہونا،خاندان میں کسی اور خاتون کا اس مرض میں مبتلا ہونا،ورم ہونا،اس مرض کی واضح علامات ہیں۔
کینسر پہ کام کرنے والی ڈاکٹرعائشہ کا کہنا ہے کہ اس کے چار مرحلے ہیں پہلے مرحلے میں گھلٹی بنتی ہے اورپستان میں شدید درد شروع ہوجاتا ہے جو ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ جاتا ہے اگر ماں کو کینسر ہے تو بیٹی میں بھی کینسر ہونے کے چانس بڑھ جاتے ہیں،دوسرے مرحلے میں چھاتی کا سائزبڑھ جاتاہے،پہلے دونوں مرحلوں پہ علاج ممکن ہے تیسرے مرحلے میں کینسر کم از کم آپ کے نولمف نوڈز میں آچکا ہوتاہے جوگردن کی ہڈی اور بغل تک کا حصہ ہے چوتھے مرحلے میں یہ چھاتی سے نکل کر ہڈیوں،جگر،پھیپھڑوں اور دماغ تک آجاتا ہے اس سٹیج پرمریضہ کی جان بچانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتاہے۔اگرکینسر پہلی سٹیج پر ہے تولمپ یاگھلٹی لمپیکاٹومی کے ذریعے نکال دی جاتی ہے،دوسری سٹیج میں جب ایک طرف کی چھاتی بڑھ جاتی ہے تو اس کے علاج کے لیے بھی لمپیکاٹومی ہی کی جاتی ہے،جبکہ اس کے بعد تیسرے اورچوتھے مرحلے میں بریسٹ کینسر خطرناک شکل اختیار کرجاتاہے ایسی صورت میں علاج کاطریقہ صرف کیموتھراپی ہی بچتاہے یا پھر سرجری کے ذریعے پورا ہی جسم سے نکال لیاجاتاہے یہ جاننے کے لیے کہ مریض کو کیموتھراپی کی ضرورت ہے یا نہیں ان کا ٹائپ ڈی ایکس نامی ٹیسٹ کیا جاتا ہے تاہم اس ٹیسٹ پر کم سے کم تین لاکھ تک خرچاآتاہے۔عام طور پر50 سے60 سال کی عورتوں میں یہ مرض ذیادہ ہوتا ہے مگر اب تو یہ نوجوان عورتوں میں بھی عام ہورہاہے۔ویسے ان علامات کی مطلب ضروری نہیں کہ کینسر ہی ہو اس کی کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے اس بات کوبھی ذہین میں رکھیں۔مثلاََ:دباؤ کاآجانا،چوٹ کا لگنا،بچے کو دودھ پینے کے دوران کاٹنا وغیرہ۔
علاج:بریسٹ کینسر کے ذیادہ ترمریضوں کو سرجری،میموگرافی،کیموم تھراپی،ریڈیوتھراپی اور ہارمون ریپلیسنٹ تھراپی کی ضرورت پڑتی ہے۔کیموم تھراپی کینسر کے خلیات کو تباہ کرتی ہے لیکن اس کے کئی مضر اور خطرناک اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں ایک جدید ریسرچ کے بعد پتہ چلا ہے کہ کینسر کے بہت سے مریضوں کوکیموم تھراپی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
احتیاتیں: خواتین کے لیے بریسٹ کینسر سے بچنے کے لیے بہترین طریقہ سکریننگ ہے اس کے علاوہ میموگرافی اوربائیوپسی کے ذریعے بھی اس مرض کی تشخیص ممکن ہے۔متوازن غذا کی کمی،ڈپریشن اورتنہائی کاشکار خواتین میں اس بیماری کاخطرہ بڑھ جاتاہے۔ڈاکٹرز کا کہناہے کہ بریسٹ کینسر سے بچنے کے لیے خواتین کو بچوں کو ڈبے کا دودھ پلانے کی بجائے اپنادودھ پلانا چاہیے،انہیں چاہیے کہ رات کو زیرجامہ اُتار کرسوئیں اور سفید یاجلد کے ہم رنگ جامے کا استعمال کریں جوکہ ڈھیلا ہو۔
ان سب باتوں کے باوجود اس خطرناک مرض سے بچناممکن ہے کیونکہ اللہ پاک نے کوئی بیماری پیدا نہیں کی جس کا علاج ممکن نا ہو بس ضرورت ہے تو اس بیماری کی بروقت تشخیص اور مناسب طریقہ علاج اختیار کرنے کی اور اس کے لیے ہمیں خود کو وقت دیناہوگا۔آئیں اس عزم کا اعادہ کریں کہ اب سے ہرروز ”5 منٹ صرف اپنے لیے“ ضرورنکالیں گے۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر۔