ہزاروں سال اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا
وقت گزرتاجاتاہے اور دن ہفتوں،مہینوں،سالوں اور پھرصدیوں کی شکل میں تبدیل ہوجاتے ہیں گزرتاوقت بہت سارے رنگوں نقشوں اور شکلوں کودھندلا دیتاہے مگر کچھ واقعات،نقوش اور انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جن کومدم کرنے میں وقت کی دھول بھی ناکام رہتی ہے،ایسا ہی ایک واقع قیامِ پاکستان اور تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑنے والے انسان ”محمدعلی جناح“ ہیں جنہیں تاریخ پاکستان ”بابائے قوم کے نام سے یاد کرتی ہے، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ قائدعظم محمدعلی جناح جیسا ایک ایسا انسان ملاجواپنے کارناموں،کردار کی مضبوطی اور افکارکے حوالے سے ایک بھرپورتاریخ بھی ہے اور نشان منزل بھی۔محمد علی جناح 25 دسمبر1876ء کوکراچی کے ایک تاجرگھرانے میں پیداہوئے آپ کے والد مسٹر پوجاجناح پیشے کے لحاظ سے ایک تاجرتھے اورچمڑے کا کاروبار کرتے تھے ان کا شمار اس وقت کے متمول تاجروں میں ہوتاتھا،پوجاجناح کا اصل وطن تو راجکوٹ تھا مگر کاروباری شغف انہیں کراچی لے آیا،اسی کاروبای گھرانے میں پیداہونے والے بچے کوقوم نے سرآنکھوں پر بھی بیٹھایا اور ”بابائے قوم“ کالقب بھی دیا۔محنت،لگن اور کام کوپورا کرنے کی دھن شروع سے ہی بابائے قوم کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اس لیے جس کام کو بھی ہاتھ میں لیا مکمل کر کے ہی دم لیاپھر چاہے وہ تعلیم کا میدان ہویا سیاست کا ہر جگہ ایسا لوہامنوایا کہ تاریخ عالم دھنگ رہ گئی کہ یہ کمزور سا انسان کہاں جا کردم لے گا،قائد عظم ایک سچے اور پکے مسلمان اور عاشقِ رسول تھے، انہوں نے ایمان،اتحاد اور تنظیم کو اپنااشعار بنا اور پھر ان پرعمل پیرا ہوکرزندگی کا ہرمعرکہ فتح کرلیا، قائدعظم محمدعلی جناح نے ابتدائی تعلیم کراچی میں ہی حاصل کی اور بعدازاں لندن سے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی،عشق مصطفی ﷺ کا یہ علم تھا کہ لندن کے جس کالج سے آپ نے وکالت کی تعلیم حاصل کی اس میں صرف اس لیے داخلہ لیا کہ اس کے صدر دروازے پہ درج دنیا کہ مشہور انسانوں میں حضور نبی مکرم ﷺ کا نام سرفہرست تھا،جن دنوں آپ وطن واپس آئے ان دنوں آپ کے والد صاحب کاروباری مشکلات سے دوچار تھے ان کا کاروبار تباہ ہوچکاتھاوہ کئی مقدمات اور مشکلات میں پھنسے ہوئے تھے آپ نے سب سے پہلے ان مشکلات کو دور کیا پھر وکالت کی پریکٹس کے لیے ممبئی چلے گئے یہاں چھ ماہ تک پریزیڈنسی مجسٹریٹ کے عہدے پرفائزرہے اور برصغیر کے سب سے کم عمرمجسٹریٹ بنے،اس کے بعد وکالت کی طرف توجہ کی اور جلد ہی اس میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کالوہامنوایاقائد کی نظرسے برصغیر کے مسلمانوں کے حالات پوشیدہ نہیں تھے آپ کے دل میں قوم کادردکوٹ کوٹ کربھراہوا تھاآپ سرسیداحمدخاں کی طرح مسلمانوں کی محرومیوں کا ازالہ کرناچاہتے تھے،مگر آپ نے راستہ سرسید احمد خاں سے زرا الگ چنا،اس مقصد کے لئے آپ کانگریس میں شامل ہوگئے کیونکہ اس وقت کانگریس ہی برصغیر کی نمائندہ جماعت سمجھی جاتی تھی حالانکہ اس وقت تک مسلم لیگ کا قیام1906ء میں عمل میں آچکاتھا مگر اس جماعت کوابھی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی تھی کانگریس میں شمولیت کے بعد جلد ہی آپ کواندازہ ہوگیا کہ یہ صرف ہندوؤں کی جماعت ہے اسے مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ یہ تومسلمانوں کواپناغلام بنانے کے چکرمیں ہیں آپ کانگریس کے اس رویے سے دل برداشتہ ہوکرلندن واپس چلے گئے۔مسلمانوں پہ یہ بہت کڑاوقت تھا حکمران انگریز اور ہندو سب ان کے دشمن تھے مفکرِپاکستان شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مسلمانوں کی اس بے بسی پر بہت کڑھتے رہتے تھے مسلمانوں کی بے بسی ان کی برداشت سے باہرتھی انہوں نے دیکھا کہ محمدعلی جناح کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس پر مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں بھروسہ کیا جاسکے،انہوں نے قائدعظم محمدعلی جناح کے نام خط لکھا اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ برصغیر واپس آکرمسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی بھاگ دوڑسنبھالیں۔علامہ محمداقبال کے آمادہ کرنے پرقائد واپس برصغیر لوٹ آئے اور1913ء میں مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی،بکھری ہوئی قوم کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کیا،شہرشہرجاکرمسلمانوں کوجھنجوڑا،انہیں آذادی اور خود مختاری کاسبق پڑھایا مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے میں ڈاکٹر علامہ محمداقبال نے اپنی قلم کے ذریعے قائد کابھرپورساتھ دیا اور اپنی شاعری سے مسلمانوں میں آذادی کی روح پھونک دی۔گاندھی نے اس صورت حال کوسنبھالنے کے لیے ہزار پینترے استعمال کیے مگر سب بے سودثابت ہوئے۔1916ء میں مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان ایک سیاسی معاہدہ ہوا جیسے تاریخ میثاق لکھنو کے نام سے یاد کرتی ہے میثاق لکھنوء کوعمل میں لانا اور لارڈولنگٹن کے رجعت پسندانہ اقتدار کے خلاف جرات مندانہ مؤقف اختیار کرناقائدعظم محمدعلی جناح کے وہ کارنامے ہیں جن کی وجہ سے آپ کا نام ہندوستان کے گھر گھر میں پہنچ گیا۔1927ء میں حکومت برطانیہ نے ہندوستان کے لیے سائمن کمیشن مقررکیا جس کامقصد ہندوستان میں آئینی اصلاحات کاجائزہ لیناتھا ہندوستان کے لوگوں نے اس کمیشن کابائیکاٹ کیا 19مئی1928 ء ہندوستان کی مقامی سیاسی جماعتوں کی کانفرنس ہوئی جس کی سربراہی پنڈت جواہرلال نہرو نے کی،اس کانفرنس میں 9 رکنی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیاجس کا مقصدہندوستان کے لیے ایک آئینی ڈھانچہ تشکیل دیناتھاجوسب کے لیے قابلِ قبول ہو،تاریخ اسے نہرورپورٹ کے نام سے یاد کرتی ہے،نہرو رپورٹ اگست1928 ء میں شائع ہوئی اس رپورٹ سے ہندوؤں کے ذینیت کھل کرسامنے آگئی، قائدعظم نے نہرو رپورٹ کوماننے سے انکار کردیا اور1929ء میں مشہور زمانہ 14 نکات پیش کیے جن میں مسلمانوں کے مطالبات کواحسن طریقے سے پیش کیا گیا،قائدعظم کے 14 نکاتی فارمولا کہ بعد ان کا ٹھوس حل پہلی بار ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے1930ء میں اپنے مشہور خطبہ آلہ آباد میں پیش کیا انہوں نے کہا کہ مسلمان ایک قوم ہیں اور ان کے لیے ایک الگ وطن کاقیام ناگزیرہے لہذٰا ہندوستان کے وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں،انہیں ملاکر ایک اسلامی مملکت تشکیل دی جائے جہاں وہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارسکیں۔اس تقریرپرہندو تلملااُٹھے انہیں اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آتانظر آنے لگامگر مسلمانوں کوایک نصب العین مل گیاقائدعظم نے بھی اسے منزل بنالیا،ولایت کے ایک مسلمان طالب علم چوہدری رحمت علی نے اس مجوزہ اسلامی ریاست کانام ”پاکستان“ تجویزکیا۔ انگریز اور کانگریس نے اس کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی مگرقائدعظم محمدعلی جناح نے ان کا بڑی خوبصورتی سے جواب دیاآخر ان کو مسلمانوں کا مطالبہ مانناپڑا اور بآلاخر14اگست1947ء کوپاکستان کاوجود دنیاکے نقشے پرثبت ہوگیاپاکستان بننے کے بعد آپ پہلے گورنرجنرل مقرر ہوئے آپ کہاکرتے تھے کہ جتنی قربانیاں اور محنت ہمیں اس ملک کے حصول کے لیے کرنا پڑی ہے اب اس کوقائم رکھنے اور آگے لے جانے کے لیے اس سے کہیں قربانیوں اور محنت کی ضرورت ہے، قائد نوجوانوں کو ہراول دستہ قرار دیتے اور انہیں ہروقت ہرقسم کی قربانی کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کرتے، پاکستان توبن گیا مگر قائد کی زندگی ذیادہ وفانہ کرسکی دن رات کے انتھک محنت اوربھاگ دوڑ کی وجہ سے آپ کی صحت خراب رہنے لگی اور بآلاخر11ستمبر1948ء کوپاکستان کا بانی،نڈر اور بے باک لیڈر قوم کوروتاچھوڑ کرخالق حقیقی سے جاملا۔
اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن
ملت کا پاسباں تحریر: تبسم صباء کنیز (سادہ باتیں)
