• Sat. Jun 28th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

تاجر برادری کے خدشات دور کرنے کیلئے نیب آرڈیننس میں ترمیم لیکن بیوروکریسی اور سیاستدانوں کو کس حد تک فائدہ ہوسکتا ہے؟ سینئر صحافی انصار عباسی نے بھانڈا پھوڑ دیا

Dec 29, 2019

اسلام آباد (ویب ڈیسک) نیب قانون میں تازہ ترین ترامیم نے بنیادی طور پر تاجر برادری کے خدشات کی ضروریات کو پورا کیا ہے، جو سرکاری ملازمین اور سیاستدانوں کو کچھ ریلیف کی بھی پیشکش کرے گا لیکن بیورو اور اس کے چیئرمین کے سخت اختیارات بغیر کسی پڑتال کے اب بھی برقرار ہیں اور عوامی عہدہ رکھنے والوں کو ہراساں کرنا جاری رکھیں گے۔
روزنامہ جنگ میں انصار عباسی نے لکھا کہ اگرچہ تاجر برادری خوش قسمت ہے کہ اسے نیب کا پابند نہیں بنایا گیا ہے لیکن سول بیوروکریسی کو مطمئن کرنے کیلئے کی گئی ترامیم سیکریٹریز کمیٹی کی جانب سے کی گئی سفارشات سے بہت دور ہیں۔ اس آرڈیننس میں بمشکل ہی کمیٹی کی سفارشات میں سے کسی کو شامل کیا گیا ہے۔جیسا کہ ماضی کے برعکس عوامی عہدے داروں کو آزادانہ طور پر اپنی متلون مزاجی اور خواہشات اور محض اختیارات کے ناجائز استعمال یا ضابطے کی خامیوں کے الزام پر گرفت میں لینے کے بجائے بدعنوانی کے حقیقی واقعات کا پتہ لگانے کیلئے یہ ترامیم نیب کو پہلے سے زیادہ سخت کام کرنے دیں گی۔
حکومت کے فوری فائدے کیلئے مالم جبہ اور بی آر ٹی پشاور جیسے مقدمات، جنہیں ضابطے کی خامیوں یا اختیارات کے ناجائز استعمال کی بنیاد پر پیسوں کے ہیر پھیر کے کسی بھی ثبوت کے بغیر بنایا جارہا ہے، وہ کمزور پڑجائیں گے۔دوسروں کے علاوہ وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے بھی ان مقدمات میں سوالات پوچھے جارہے ہیں۔ تازہ ترین تبدیلیاں مختلف سطحوں کے ریلیف شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال وغیرہ جیسوں کیلئے بھی لائیں گی۔

اخبار کے مطابق ان میں سے بہت سے افراد بشمول حزب اختلاف جماعتوں کے سیاستدان جو نیب کے ریڈار پر ہیں، کو بھی ریلیف ملے گا جیسا کہ یہ بیورو ’طاقت کا استعمال‘ کو بڑے پیمانے پر بطور بہت سوں کی گرفتاری کے بہانے کے طور پر کرتا رہا ہے جسے اب نظر ثانی شدہ قانون کے تحت نہیں کیا جاسکتا۔اس قانون سے شہباز شریف کو آشیانہ اور رمضان شوگر مل مقدمات میں فائدہ پہنچے گا جیسا کہ ان مقدمات میں ان پر طاقت کے غلط استعمال کا الزام ہے اور کسی بھی ناجائز یا غیر قانونی مالی فائدے کا الزام نہیں۔

احسن اقبال اور شاہد عباسی جن پر طاقت کے غلط استعمال یا ضابطے کی خامیوں کا الزام لگایا گیا ہے اور پیسے بنانے کا الزام نہیں لگایا گیا، ان کے مقدمات متوقع طور پر ختم ہوجائیں گے جیسا کہ ترمیم شدہ قانون کا اب تصور ہے؛ ’کسی بھی سرکاری منصوبے یا سکیم میں ضابطے کی خامیوں کے حوالے سے اس آرڈیننس کے تحت کوئی بھی کارروائی کسی بھی عوامی عہدہ رکھنے والے کے خلاف نہیں کی جائے گی جب تک کہ یہ نہ ظاہر کردیا جائے کہ عوامی عہدہ رکھنے والے نے قابل لحاظ طور پر کوئی بھی اثاثہ یا مالی فائدہ حاصل کیا ہے جو اس کی ظاہر کردہ آمدنی کے ذرائع سے غیرمتناسب ہو یا جہاں اس طرح کے مادی فائدے کا معقول حساب نہیں لیا جاسکتا اور اس طرح کے مادی فائدے کے حصول کی تصدیق کرنے کا ثبوت ہو۔
تاہم اس بات کا خدشہ ہے کہ نیب ایسی سیاسی شخصیات کو سلاخوں کے پیچھے رکھنے کیلئے اب ان کے خلاف مالی فائدے کے الزامات لگا سکتا ہے۔ نئی ترمیم نیب کو ان کے خلاف کارروائی سے بھی روکے گی جو نیک نیتی سے فیصلے کرتےہیں جب تک کہ کسی بھی مالی فائدہ یا اثاثہ لینے کا کوئی تصدیقی ثبوت نہ ہو جو ظاہر کئے گئے آمدنی کے ذرائع سے غیرمتناسب ہوں یا جس کا معقول حساب نہیں لیا جاسکتا۔احد چیمہ اور فواد چوہدری جیسوں کو نظرثانی شدہ قانون سے بمشکل ہی کوئی فائدہ پہنچے گا کیونکہ ٹرائل کے نتیجے کے بغیر سرکاری ملازمین کی طویل قید کے کیس میں ضمانت کی فراہمی کیلئے سیکریٹریز کمیٹی کی سفارشات کو منظور نہیں کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق خصوصاً سول بیورو کریسی کیلئے مایوسی کی بات ہے کہ چیئرمین نیب کی جانب سے عوامی عہدہ رکھنے والوں کیلئے گرفتاری کے ظالمانہ اور انوکھے اختیارات اب بھی برقرار ہیں۔ اسی طرح 90 روزہ سخت ریمانڈ کو بھی نہیں چھوا گیا۔چیئرمین نیب کسی بھی وقت کسی بھی بند انکوائری کو اب بھی دوبارہ سے کھول سکتے ہیں۔ نیب قانون میں ضمانت کی شق شامل کرنے کیلئے سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود یہ آرڈیننس ٹرائل کورٹ کو یہ اختیارات نہیں دیتا۔ نیب مقدمات میں ایک سال سے سلاخوں کے پیچھے ملزمان کے کیس میں قانونی ضمانت کو ابھی بھی محروم رکھا گیا ہے۔

نیب کے قانون میں اب بھی جو سنگین خامی ہے وہ یہ ہے کہ نیب اور اس کے چیئرمین کی جانب سے اتھارٹی کے غلط استعمال سے ملزمان کو کیسے محفوظ بنایا جائے۔ چیئرمین کے اختیارات کو باقاعدہ نہیں بنایا گیا۔عام طور پر نیب کے ملزمان شکایت کرتے ہیں کہ بیورو غلط طریقے سے ان کے رشتہ داروں کے اثاثوں کو ملزم کے بے نامی کے طور پر شامل کرتا ہے حتیٰ کے ان کیسز میں جہاں رشتہ دار اپنے اثاثے ٹیکس ڈیکلیئریشن میں ظاہر کرتے ہیں۔

اب بھی تحقیقات بند کرنے کیلئے کوئی ٹائم لائن نہیں ہے جو 4 سالوں سے گھسٹ رہے ہیں جس سے ملزمان اور دفاع کے گواہان کو ہراساں کرنے کا نتیجہ سامنے آرہا ہے۔بیوروکریسی میں ذرائع کا اصرار ہے کہ قانونی نظام کی ناکامی سے بچنے اور صاف ٹرائل کو یقینی بنانے کیلئے نیب قانون میں بعض بنیادی ترامیم کی ضرورت ہے