لاہور (نمائندہ خصوصی) مسلم لیگ ن کے رہنما ملک احمد خان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 48 کے برخلاف آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر ایگزیکٹو کی اتھارٹی کو انڈرمائن کیا جس کی وجہ سے ن لیگ کو ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو کمپرومائز کرنا پڑا اور اس ترمیم پر ووٹ کا اعلان کرنا پڑا۔
نجی ٹی وی سماءکے پروگرام میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے معاملے پر ن لیگ کے یوٹرن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما ملک محمد احمد خان نے کہا کہ ’جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر میں وزیر اعظم کے اس حق کے اوپر اپنی بنیاد رکھوں کہ یہ اختیار ایگزیکٹو کا ہے اور جوڈیشل کو اس کے اندر کسی بھی حالت میں آرٹیکل 48 کے تحت مداخلت کی قطعی ممانعت ہے لیکن پھر بھی سپریم کورٹ اس میں جھانکے اور راستہ پارلیمنٹ کی طرف بھیجے اور وہ ایگزیکٹو اتھارٹی جو پارلیمنٹ سے اپنی طاقت لے رہی تھی اس کو درخور اعتنا نہ سمجھے تو پھر میرے پاس ووٹ کو عزت دو کی اس کے علاوہ کیا آپشن رہ جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر ووٹ کو عزت دو کی بات ہے تو ادارہ سپریم کورٹ بھی ہے اور ادارہ ملٹری بھی ہے، آئین قطعی ممانعت کرتا ہے لیکن آرٹیکل 48 کی موجودگی میں آرمی ایکٹ 1952 تک بات کیوں گئی؟
ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ ’ میں کیوں نہ ووٹ دوں، میں ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو اس سے زیادہ کیا سمجھوں کہ کیا وزیر اعظم اس ملک میں صرف عمران خان نے رہنا ہے، کیا میں جوڈیشل ریویو کے نام پر ایگزیکٹو کی اتھارٹی کو انڈر مائن کردوں اور اپنی پارلیمنٹ کو تالا لگا دوں؟ اگر یہ راستہ سپریم کورٹ نے خود پارلیمنٹ کی طرف کھولا ہے تو میری یہ مجبوری ہے کہ میں اس پر ووٹ دوں۔‘
آرمی ایکٹ میں ترمیم کے معاملے پر ملک احمد خان نے ن لیگ کے ’ یوٹرن‘ کی وضاحت کردی
