• Tue. Jul 8th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

’جہانگیر ترین کے علاوہ یہ تین سینئر وزرا بھی اب عمران خان کے قریبی ساتھی نہیں رہے؟، سینئر صحافی انصار عباسی نے تہلکہ خیز دعویٰ کردیا

Feb 6, 2020

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) سینئر صحافی انصار عباسی نے تہلکہ خیز دعویٰ کیاہے کہ جہانگیر ترین کے علاوہ کابینہ کے تین اہم وزرااور تحریک انصاف کے سینئر کارکنان اب وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی نہیں رہے۔انہوں نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ان تین وزرا میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، وزیربرائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری اور وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر شامل ہیں۔

روزنامہ جنگ میں لکھے گئے اپنے کالم میں انصار عباسی نے کہا کہ ’چند روز قبل تحریک انصاف کے ایک رہنما سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ جہانگیر ترین کہاں ہیں، آج کل نظر نہیں آ رہے؟ انہیں وزیراعظم عمران خان نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ معاملات سلجھانے کے لیے نئی کمیٹی میں شامل کیوں نہیں کیا؟

بلکہ وہ تو ان تمام مذاکرات اور کمیٹیوں کا حصہ تھے جو اتحادیوں کو منانے کا کام کر رہی تھیں۔انہیں ان کمیٹیوں سے کیوں نکالا،ابھی چند ہفتے قبل تک تو جہانگیر ترین کے بغیر کوئی سیاسی معاملہ ہو یا انتظامی بحران، حل کرنے کا وزیر اعظم تصور بھی نہیں کرتے تھے؟

انصار عباسی کے مطابق ’تحریک انصاف کے رہنما نے مجھے رازداری میں بتایا کہ وزیراعظم کو شک ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف مبینہ سازش کرنے والوں میں تحریک انصاف کے کچھ اندر کے لوگ بھی شامل تھے۔(اس رہنما نے چند ایک نام بھی لیے لیکن ان کا نام یہاں لینا مناسب نہیں) اس رہنما نے الزام لگایا کہ ہمارے ہی لوگ نہ صرف عثمان بزدار کے خلاف تحریک انصاف کے اندر اٹھنے والے طوفان کے پیچھے تھے بلکہ ایک وفاقی وزیر کو بھی مبینہ طور پر انہی افراد نے بزدار کے خلاف بولنے پر اکسایا۔ خیبر پختونخوا میں عاطف خان گروپ کے پیچھے بھی مبینہ طور پر یہی لوگ شامل تھے۔‘

انصار عباسی لکھتے ہیں کہ ’حکمران جماعت کے ایک اور رہنما سے میری بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے تفصیلات تو نہیں معلوم لیکن جہانگیر ترین کے معاملے میں کچھ نہ کچھ دوریاں ضرور پیدا ہو گئی ہیں۔ مجھے تحریک انصاف کے اس دوسرے رہنما نے مشورہ دیا کہ ایک اینکر پرسن جو عمران خان کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے، کے حالیہ انکشافات کو سنیں، بہت کچھ سمجھ آ جائے گا۔میں نے سازش سے متعلق ان الزامات جو تحریک انصاف کے اندر سے اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف لگائے جا رہے ہیں، کی تصدیق کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی لیکن ایک بات طے ہے کہ حکمران پارٹی کے معاملات بہت گڑبڑ ہیں۔‘

سینئر صحافی لکھتے ہیں کہ ’میں نے ایک وزیر سے بات کی تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں اب جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری جیسے لوگ شامل نہیں۔ وزیروں، مشیروں اور پارٹی سے تعلق رکھنے والوں میں اگر کوئی عمران خان کے واقعی قریب ہے تو وہ زلفی بخاری ہیں جن کو وزیراعظم کی قربت کی وجہ سے کابینہ میں سب سے طاقتور تصور کیا جاتا ہے۔زلفی بخاری کے علاوہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بھی عمران خان کے لیے بہت اہم ہیں لیکن وہ ایک سرکاری افسر ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم اپنی اہلیہ سے بھی سیاسی اور حکومتی معاملات میں مشورہ لیتے ہیں اور ان مشوروں کو وہ بہت اہمیت بھی دیتے ہیں۔‘

انصار عباسی کے مطابق ’جہانگیر ترین کے بارے میں تحریک انصاف کے ایک رہنما (جنہیں ترین گروپ کا ہی سمجھا جاتا ہے) نے مجھے بتایا کہ وہ لندن چلے گئے ہیں اس لیے ان کے بارے میں ہر قسم کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔بدھ کے ایک اخبار کی خبر کے مطابق جہانگیر ترین تو متعلقہ رپورٹر کو رابطہ کرنے پر نہیں ملے لیکن ان کے پرسنل سیکرٹری نے کہا کہ جہانگیر ترین پاکستان میں ہی ہیں اور سیاسی معاملات پر پارٹی لیڈرشپ کے حکم پر کام کر رہے ہیں۔ پرسنل سیکرٹری نے جہانگیر ترین کے متعلق کی جانے والی باتوں کو ردّ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر جہانگیر ترین کے بارے میں یہ تاثر پیدا کر رہے ہیں۔‘

انصار عباسی مزید لکھتے ہیں کہ ’گویا سازش ہوئی یا نہیں، اگر ہوئی تو کس نے کس کے خلاف کی؟ اس کا جواب تو وزیراعظم کے پاس ہی ہوگا لیکن اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حکمران جماعت کے اندرونی معاملات کافی گمبھیر ہیں، اوپر سے اتحادیوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔‘

انصار لکھتے ہیں کہ ’میرے سوال پر کہ یہ حکومت ان حالات میں آگے کیسے چلے گی؟ ایک وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ پاکستان کو ایک catch-22 (مشکل) صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک طرف عمران خان کے علاوہ کوئی دوسرا سیاسی آپشن موجود نہیں تو دوسری طرف معیشت اور طرزِ حکمرانی کے معاملات بہت خراب ہیں اور سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے۔ان وزیر صاحب کا تجزیہ تھا کہ اگر عمران خان کو ہٹاتے ہیں تو سیاسی خلا پر کرنے والا دوسرا کوئی موجود نہیں ہوگا لیکن اگر عمران خان ایسے ہی مرکز اور صوبوں (پنجاب اور خیبر پختونخوا) کو چلاتے رہے تو پھر گورننس اور معیشت سنبھل نہیں سکتی اور ملک ایسے چل نہیں سکتا۔گویا صورتحال بہت خراب ہے اور اس کا احساس اب کابینہ میں موجود افراد اور تحریک انصاف کے رہنماوں کو بھی ہو رہا ہے۔ اب آگے کیا ہو گا؟ اس کا جواب فی الحال میرے پاس نہیں۔‘