لاہور(نمائندہ خصوصی)دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج خواتین کاعالمی دن منایاجارہاہے۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں ’عورت مارچ ‘مظاہرے اور ریلیوں کاانعقادکیاجارہاہے۔
حسب سابق اس بار بھی پاکستان میں ’عورت مارچ‘متنازعہ ہوچکاہے۔ تنازعے کی وجہ خواتین کے حقوق نہیں بلکہ وہ بینرز ہیں جن پر پاکستانیوں کی رائے دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایسے میں عورت مارچ کے فیس بک اکاونٹ پر انتظامیہ نے اپنے تمام تر مطالبات واضح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دراصل وہ چاہتی کیا ہیں۔
’عورت مارچ‘کے آفیشل اکاونٹ پر پوسٹ کئے گئے بینرز میں جو9مطالبات دہرائے گئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں:
نمبرایک:سکولوں ،گھروں،دفاترمیں جنسی ہراسانی اورتشدد کاخاتمہ
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ 2013گھریلو تشدد قانون اور 2018 خواجہ سرا تحفظ قانون کو نافذ کیا جائے، ہتکِ عزت کو ناقابلِ تعزیر بنایا جائے اور تعزیراتِ پاکستان کے تحت سیکشن 499 اور 500 کو منسوخ کیا جائے!
نمبردو:استحصال اور تفریق سے پاک معاشی انصاف کا نظام
ہم مطالبہ کرتے ہیں اشیائے خوردونوش ( ۲۵ %) اور ادویات ( پانچ سو % تک) کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے اقدامات کو واپس لیا جائے؛ سندھ حکومت ٹینینسی (لگان) قانون کے تحت ترمیم کا فیصلہ واپس لے جس سے بیگار پہ پابندی ختم ہوئی ہے ؛اور معذور افراد کے لئے مناسب تنخواہ اور سماجی تحفظ یقینی بنایا جائے۔
نمبرتین:تولیدی صحت کو یقینی بنایا جائے
ہم مطالبہ کرتے ہیں حکومت جنسی امراض کی روک تھام، تشخیص اور علاج، اور غیر ضروری حمل کی روک تھام کے لئے مفت سہولیات مہیا کرے ، اور جنسی و تولیدی صحت کو صحتِ عامہ کی تربیت کا حصہ بنائے، اور 2018 کے سندھ کے زچگی سے متعلق قانون کے تحت دیہی و شہری علاقوں میں تمام سہولیات فراہم کرے
نمبرچار:ماحولیاتی انصاف
ہم مطالبہ کرتے ہیں توانائی کے قابل جدید ذرائع کے استعمال، ماحول کے تحفظ اور نگرانی، گندگی کو صاف کرنے، ماحولیاتی تبدیلی کے ۲۰۱۷ قانون اور ۱۹۹۷ کے ماحولیاتی تحفظ قانون کے تحت پائیدار ترقی کے فروغ کا، اور ماحولیاتی تبدیلی ۲۰۱۴-۲۰۳۰ کے تحت قدرتی آفات کے بعد بے مکانی سے متعلق موثر اقدامات اٹھانے کا۔
نمبرپانچ:شہر کا حق
ہم مطالبہ کرتے ہیں بجلی، گیس، صاف پانی، صحت، تعلیم اور سب شہریوں کیلئے محفوظ ٹرانسپورٹ کی فراہمی کا، اور شہر میں حالیہ تجاوزات کے خاتمہ کی غیرانسانی مہم کے نتیجہ میں بے گھر ہونے والوں کو جلد متبادل رہائش فراہم کرنے کا۔
نمبرچھ:اقلیتوں کی حقوق کا تحفظ اور جبری تبدیلی مذہب کا خاتمہ
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومتِ سندھ اقلیتی برادری کی بچیوں اور خواتین کے تحفظ کے لئے زبردستی مذہب تبدیل کرنے اور زبردستی شادی سے تحفظ کے خلاف پیش کئے گئے بل کو منظور کرے اور مجرموں کو سزا دے، اور اقلیتوں کے حقوق کا آزاد کمیشن قائم کرے جو جبری تبدیلءمذہب کے واقعات کی جانچ پڑتال کرے۔
نمبرسات:خواتین ، خواجہ سرا اور صنف غیر ثنائی افراد کی سیاست میں شمولیت
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاست خواتین ، خواجہ سرا اور صنف غیر ثنائی افراد کی مقامی ، صوبائی اور وفاقی سطح پہ کوٹہ کے تحت سیاسی جماعتوں ، مقامی حکومت اور ، صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں پوری سیاسی شرکت کویقینی بنائے؛ اور نجی وسرکاری جامعات میں طلبہ یونینوں کو بحال کرے۔
نمبرآٹھ: میڈیا میں منصفانہ اور اخلاقی نمائندگی
ہم میڈیا میں خواتین ، خواجہ سرا اور صنف غیر ثنائی افراد کی منصفانہ اور اخلاقی نمائندگی اوران سے متعلق تمام صحافیوں کی صنفی اور جنسی تشدد کے بارے میں تربیت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
نمبرنو:معذور افراد کے حقوق کی یقینی حفاظت
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اگلی فرد شماری میں معذور افراد کی تعداد کا صحیح تعین کیا جائے، خصوصی شناختی کارڈ کے اجرا کو آسان بنایا جائے، اور اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق معذور افراد پہ عملدرآمد کیا جائے۔ ہم ۲۰۱۷ پاکستان تعلیمی پالیسی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن ۲۰۱۹ کی معذور افراد سے متعلق پالیسیوں پہ عمل کرنے اور پیشہ ورانہ تربیت تک رسائی ممکن بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ کہ عوامی مقامات اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ۲۰۰۶ کے کوڈ کے تحت قابل رسائی بنایا جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس کئے گئے عورت مارچ میں کئی ایسے مطالبات یا نعروں کے بینرز آویزاں کئے گئے جن پر لوگوں کی بڑی تعداد نے اعتراضات اٹھائےتھے۔ لوگوں کی جانب سے میرا جسم میری مرضی جو کہ اس مارچ کا مرکزی سلوگن سمجھا جاتا ہے کو بھی زیادہ پسند نہیں کیا ہے۔