غلط معلومات یا فیک نیوز سے مراد ایسی خبریں اور معلومات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف من گھڑت کہانیاں ہوتی ہیں جو خوف و ہراس پھیلانے دھوکہ دینے ،اپنا کاروبار چمکانےاور کسی نہ کسی مقصد کی لیے استمعال کی جا رہی ہوتی ہیں جو کہ بلکل بھی رفاع عامہ کی لیے فائدہ مند نہیں بلکہ ایسی خبریں حد سے زیادہ مایوسی، بے چینی ، اور معاشرے میں بگاڑ کا باغث بنتی ہیں۔ غلط ابلاغ ہمارے لیے نیا نہیں ہے اس کا آغاز زمانہ قدیم سے ہوا جب صرف منتخب لوگوں کو لکھنے کی اجازت ہوتی تھی جو کہ صرف اپنے آقاؤں کے لیے لکھتے اور ان کو خوش کرنے اور مفادات حاصل کرنے کے لیے ان کے بارے میں بڑھا چڑھا کر لکھتے تھے اور اصل حقائق چھپاتے۔ یہ لوگ صرف محلوں تک محدود تھے ۔ جو زیادہ خبریں لکھتا اور پھیلاتا اس کو لیڈر سمجھا جاتا تھا اور اس کو باقی تمام لکھاریوں سے فوقیت حاصل ہوتی ۔ لیکن اس کی خبروں کی ثوثیق کوئی نہیں کرتا تھا اور کیوں کہ اگر کوئی ایسا کرتا اس کا سر قلم کر دیا جاتا تھا۔ اس دور میں جب ابلاغ صرف چند مخصوص لوگوں تک محدور تھا اور عام لوگ جو کہ سچ بتانا اور اصل حقائق سے پردہ ہٹانا چاہتے تھے انہوں نے اپنی تحریروں کونقش نگاری اور تصویروں خاکوں میں محفوظ کر لیا۔
جب پرنٹ میڈیا کا دور آیا تو اس وقت زمانہ اتنا پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن پرنٹ میڈیا ابلاغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنا۔ اس وقت جو لکھا جاتا وہ بھی درست نہیں تھا لیکن توثیق کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا اسوقت لوگ زیادہ تر ان پڑھ تھے اس لیے وہ کسی بھی حقائق جاتنے تو تھے لیکن بیان نہیں کر سکتے تھے اس زمانےکے بادشاہ پڑھے لکھے لوگوں کا انتخاب کرتے جو ان کے لیے ابلاغ کا کام کرتے انہی لوگوں کو حکومتی امور کے لیے چنا جاتا جو کمونیکشن میں منجھے ہوتے ۔ جیسے جیسے خواندگی کا اضافہ ہوا اور مزیدلوگوں کو پڑھنا لکھنا آیا انہوں نے حکومتی حقائق کو پیروڈی اور مزاح میں لکھنا شرو ع کیا جیسا کہ جونا تھن سوئفٹ، جو کہ انگریزی ادیب تھا، نے اپنی ایک کتاب ” دی آرٹ آف پولیٹیکل لائینگ” میں غلط خبروں کےحوالے سے لکھا کہ جب جھوٹ پوری طرح سے پھیل جاتا ہے تب سچ اپنے قدم باہر نکالتا ہے اور جب تک انسان سچ کی تلاش کرتا اس وقت تک وہ جھوٹ اپنے دور رس نتائج حاصل کر چکا ہوتا ہے۔
اب اگر ماس میڈیا اور انٹرنٹ کا دور دیکھا جائے تو اس دور میں فیک نیوزاور بھی بڑھ گـئی ہیں جیسے جیسے لوگ خواندہ ہو رہے ہیں انٹرنیٹ یوزر بڑھ رہے ہیں کاپی پیسٹ کا ٹرینڈ بڑھ گیا ہے لوگ بہت آسانی سے گروپس میں اور فیس بک پر فیک نیوز کو پیسٹ کر دیتے ہیں ۔ لوگ جھوٹی خبروں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اورکچھ لوگوں نے اس کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کیا وہاں اس ٹیکنالوجی کی بدولت ہم بڑی آسانی سے جھوٹی خبروں کے شکنجے میں آ جاتے ہیں اور جب تک سچ ہم تک پہنچتا ہے ہم نہ صرف مستقید ہو چکے ہوتے ہیں بلکہ بغیر تحقیق کے اس خبر کو اگے پہنچا چکے ہوتے ہیں۔ جس سے لوگوں میں سنسنی خیزی ، بے قراری اور پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ اب جب کہ ہم کرونا وائرس کے عذاب میں مبتلا ہیں اور ہم نے دیکھا کہ لوگ کس طرح اپنی فیک نیوز بنا کر پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کے دماغ میں اس وائرس کو منتقل کر رہے ہیں یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہمیں لمحہ لمحہ درست خبر چاہیے کہ کرونا ہمارے لوگوں کو کتنا متاثر کر چکا ہے ایسے میں فیک نیوز صرف اور صرف ہماری پریشانی میں اضافے کا باغث بن رہی ہیں ۔ اور تو اور کرونے کے نت نئے علاج اور اس سے متعلق ریسرچ جو کہ توثیق شدہ نہیں ہیں بہت شدت سے پھیل رہی ہیں۔ اور اگر کوئی سچی نیوز ہے بھی تو وہ ان سب فیک نیوز کی بمبارمٹ میں دب گئی ہیں۔ ہماری قوم کے لوگ پڑھے لکھے تو ضرور ہیں لیکن ان کو تحقیق کی عادت نہیں ہے سنی سنائی پرجلدی یقین کر لیتے ہیں اس لیے اس طرح کی فیک نیوز ان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے ۔ ہماری نیوز چینیلز بھی اس کارکردگی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں وہ بھی نیوز بریک کرنے کے چکر میں بہت سی فیک نیوز منظر عام پر لے آتے ہیں جیسے کچھ دن پہلے ہم نے برطانیہ کے وزیراعظم کے انتقال کی جھوٹی غیر تصدیق شدہ خبر سنی۔
کرونا کے مریضوں کی صیح تعداد جاننا بہت ضروری ہے تاکہ ہم اپنے حفاظتی سرگرمیوں کو اس کے مطابق کر سکیں لیکن سنسنی خیزی اور جھوٹی خبروں سے بہت سے لوگ خوف کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ خوف ان کو ذہنوں پر سوار ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ان میں قوت مدافعت اور اس وائرس سے لڑنے کی سکت کم ہو رہی ہے ۔ اس سائکلوجیکل وار کے ممکنہ مقاصد کیا ہیں ہمیں نہیں پتا لیکن یہ اندازہ بہت اچھی طرح ہورہا ہے کہ خوف وہراس پھیل گیا تو بہت نقصان ہو سکتا ہے ۔
ہمیں بحثیت قوم ضرورت اس بات کی ہے کہ خبر کی خوب تحقیق کریں جو بھی خبر پڑھیں اس کی پہلے تصدیق کریں کہ وہ خبر کس ذرائع سے موصول ہوئی ہے اس ذرائع کی صداقت اور قابل اعتباری کو جانچنے کے بعد ہی خبر کو سوشل میڈیا پر لگائیں اور لوگوں کو مطلع کریں کریں کہ وہ کس ذرائع سے موصول ہوئی۔ اس طریقے سے من گھڑت کہانیاں بنانے والے اور کاروباری لوگ بےنقاب ہوں گے۔ حکومت کی کنٹرول پالیسی اور پی ٹی اے کے حکام کو چاہیے کہ جس درجہ ممکن ہو لوگوں کے اس عمل پر کنٹرول کریں تاکہ ابہام اور سنسنی پیدا نہ ہو بلکہ لوگ صیح اور تصدیق شدہ خبر جان پائیں جوکہ ان کا حق ہے۔
کرونا وائرس اور غلط معلومات تحریر عنبرین مشتاق بھٹی
