ریاض(نمائندہ خصوصی) امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی کے اہل خانہ نے اپنے والد کے قاتلوں کو معاف کردیا ۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جمال خاشقجی کے بیٹے صلاح خاشقجی نے رات گئے کی گئی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’اس بابرکت مہینے(رمضان) کی اس بابرکت رات کو ہم نے اللہ تعالیٰ کااس کی کتاب کریم میں لکھا قول یاد کیا کہ اگر ایک انسان معاف کرتا ہے اور مفاہمت کرتا ہے تو اس کا اجر اسے اللہ دیتا ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’اسے لیے ہم، شہید جمال خاشقجی کے بیٹے اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے والد کے قاتلوں کو معاف کیا اور ہم اللہ عزوجل سے اس کا اجر مانگتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ سعودی عرب کے حکمرانوں پر تنقید کرنے والے صحافی جمال خاشقجی کو دو اکتوبر 2018 کو استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ میں بے دردی سے قتل کیا گیا تھا جہاں وہ اپنی دوسری شادی سے پہلے ضروری کاغذی کارروائی کے لیے گئے تھے۔ اس موقع پر ان کی منگیتر باہر ان کا انتظار کرتی رہیں تاہم وہ اندر جانے کے بعد کبھی نہیں لوٹے، حتیٰ کہ ان کی میت تک نہیں مل سکی۔
اس قتل کے حوالے سے جہاں سعودی حکمرانوں پر انگلیاں اٹھیں وہیں جمال خاشقجی کیس پر کام کرنے والی اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایگنس کیلامارڈ نے مطالبہ کیا تھا کہ اس قتل کے حوالے سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی تفتیش کی جائے۔
سعودی ولی عہد نے اس واقعے سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کیا تھا تاہم انھوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے رہنما کی حیثیت سے وہ اس کی ’پوری ذمہ داری قبول‘ کرتے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں سعودی عرب نے استنبول میں اپنے قونصل خانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے پانچ قاتلوں کو سزائے موت اور تین کو 24 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
پبلک پراسیکیوٹر نے اپنے بیان میں کہ تھاا کہ سابق شاہی مشیر سعود القہتانی کے خلاف بھی اس قتل کیس میں تحقیقات کی گئیں تاہم ان پر جرم ثابت نہیں ہوا اور انہیں رہا کر دیا گیا۔ اپنے قتل سے قبل جمال خاشقجی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھا کرتے تھے۔
عرب نیوز کے مطابق عدالت میں خاشقجی کے قتل کے وقت سعودی قونصل جنرل محمد العتیبی کی جائے وقوعہ پر موجودگی بھی ثابت نہیں ہوئی۔ خاشقجی قتل کیس میں عدالت کی نو سماعتیں ہوئیں اور دسویں سماعت میں فیصلہ جاری کیا گیا۔فیصلوں کے اجرا کے دوران خاشقجی کے خاندان کے افراد اور ترکی کے سرکاری نمائندے عدالت میں موجود تھے۔تین دیگر افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ استغاثہ کے مطابق تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ خاشقجی کو قتل کرنے کی پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔استغاثہ نے مزید کہا کہ سابق ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد العسیری کو ناکافی شواہد کی بنا پر بری کیا گیا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کے ٹویٹ کے مطابق اس کیس میں 31 افراد نامزد تھے جن میں سے 21 گرفتار کیے گئے جب کہ دس کو شامل تفتیش کیا گیا۔
سعودی نژاد صحافی اور امریکی شہری جمال خاشقجی کے حوالے سے کئی خبریں گردش میں رہیں،وہ دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد’ لاپتہ ‘ہو گئے تھے۔ صحافی کی گمشدگی کے کچھ دن بعد مغربی میڈیا سے یہ موقف سامنے آیا تھا کہ خاشقجی کو مار دیا گیا تاہم اس موقف کی متعدد بار تردید کی گئی۔
خاشقجی کی گمشدگی کے کچھ عرصے بعد منظر عام پر آیا کہ صحافی جمال خاشقجی استنبول کے سعودی قونصل خانہ میں جھگڑے کے دوران ہلاک ہوئے۔امریکہ نے سمیت مغربی ممالک کا رد عمل اس معاملے پر شدید رہا۔ متعدد مغربی ممالک نے اس حوالے سے سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کے بھی بائیکاٹ کیا۔