• Sun. Jun 29th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

ھدف کی تشخیص ۔ ۔ تحریر:فائزہ عباس

Jun 8, 2020

اس تڑپ، اس لحظے اور لمحے کی تشخیص جو اضطراب اسطرح سے عطا کرے کی ۔ ۔ ۔

شدت پیاس سے طلب پیدا ہو، اور اس طلب کے باعث انسان جان نہ ہوتے ہوئے بھی تڑپ کے اٹھے، کہ زندگی کی آخری سانس تلک جینا ہے مجھے ۔ ۔ ۔❤️

پیاس پیدا کر، طلب اور تڑپ پیدا کر، کہ جو وجہ زندگی، وجہ صورت حیات ہو، جو روح حیات ہو ایسی حالت ایسا احساس پیدا کر ۔ ۔ ۔!
کہ جب تلک تڑپ ایجاد نہ ہو، تحریک عمل نہیں پیدا ہوتی، اور ہو بھی تو بہت وقتی ہوتی ہے. ۔ ۔

رب تعالیٰ آج کے جوان کو وہ سب دیکھنا نصیب فرمائے جسکے لیے اقبال رح

فرماتے تھے کہ دیکھا ہے جو کچھ میں نے، اوروں کو بھی دکھلا دے ۔ ۔ ۔❤️

یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے۔ ۔ ۔
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے ۔ ۔❤️

ابھی اقبال رح کے مخاطبین پیدا نہیں ہوئے ورنہ جوان ہو، اور کام نہ ہو، تحریک، اضطراب، تڑپ نہ ہو یہ کیسا جوان ہوا بھلا ۔ ۔ ۔؟

اصل مقصد حیات یہی ہے کہ انسان اپنے اندر صلاحیتیں بیدار کرے ۔ ۔ ۔ ان کو پروان چڑھائے ۔ ۔ ۔ اور وہ بیدار ہوتی ہیں آزمائشوں کرب درد امتحان تھکن غم میں رُلنے ٹوٹنے بکھرنے میں ۔ ۔ ۔ یہ سب انہیں آزمائشوں کی پرورش کے آنگن ہیں ۔ ۔ ۔

اب کسی کی آزمائش جناب مریم یا عیسی علیہ السلام جیسی ہوتی ہے، کسی کی فاطمہ الزہ سلام اللہ علیہا یا جناب علی علیہ السلام جیسی کسی کی زینب سلام اللہ علیہا یا جناب امام حسین علیہ السلام کے جیسی کسی کی بی بی معصومہ قم، یا قاسم علیہ السلام جیسی کسی کی سکینہ بنت حسین یا علی اصغر علیہ السلام جیسی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔

انسان میں چونکہ عمومی اعتبار سے قربانی کے جذبے کی کمی ہے یا یوں کہنا شاید زیادہ بہتر ہو کہ انسان کو سمجھ نہیں آتی کہ قربانی ہوتی کیا ہے ۔ ۔ ۔

بالکل ایسے ہی قربانی کی طرح انسان کو،
“صبر کا حقیقی معیار” نہیں معلوم کہ صبر کیا ہے۔ ۔ ۔؟
اسے کیسے کرنا ہے.۔ ۔ ۔؟
کہاں کرنا چاہیے وغیرہ ۔ ۔ ۔ اور پھر انسان سمجھنے لگتا ہے کہ وہ قربانی دے رہا ہے اور صبر کر رہا ہےجب کہ یہ بات مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہے ۔ ۔ ۔
کیونکہ بہت سے عیب ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو خود بھی نہیں معلوم ہوتے ۔ ۔ ۔ جن کی موجودگی میں انکی صلاحیت اور اھداف کو زنگ لگ جاتا ہے، جسطرح لوہا کتنا بھی بہترین کیوں نہ ہو، زنگ اسکو کھا جاتا ہے، یا کشتی کسقدر مرضی بہترین اور خوبصورت تیار کی گئ ہو تو اس میں موجود محض ایک سوراخ اسکو ڈبونے یا حادثے سے دوچار کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔ ۔ ۔

اس کے علاوہ ایک اور چیز جس پہ انسان عمومی اعتبار سے دھیان نہیں دیتا ہے کہ چونکہ انسان کو لگتا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر ایک عمل کر رہا ہے یہ سمجھے بنا کہ سوچ مٰیں اگر معیار درست نہ ہو ۔ ۔ ۔ تو خیالات مسلسل انسان کو زندگی جہنم کر کے دکھاتے رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ حالانکہ ایسا ہوتا بھی نہیں ۔ ۔ ۔ بہت نارمل چیزیں بلا بنا کر دکھاتے ہیں ۔ ۔ ۔ چونکہ انسان ایک ہی طرف سے سوچتا رہتا ہے ۔ ۔ ۔

جو اہم ترین شے انسان کے واسطے ہے وہ اپنی زات، ھدف، درست میعارات کی اصولی بنیادوں پہ تشخیص کہ جن کے اوپر آپ اپنے فیصلوں کو پرکھ سکیں کہ آیا یہ الہی میعارات ہیں، اور ان میعارات کے رو سے جو میں سوچ، سمجھ اور کر رہا ہوں وہ درست فعل ہے یا کہ نہیں ۔ ۔ ۔کیوں کہ پریشانی خیالات کی پیدا کردہ ہوتی ہے اور سنسان سمجھتا ہے کہ حالات کے باعث ایسا ہے ۔ ۔ ۔

جب انسان یہ جانتا ہے کہ رب مطلق العنان رب یے، وہ مالک ہے، خالق ہے، اور انسان کی شہ رگ سے قریب ہے ۔ ۔ ۔تو پھر اسکے بعد اپنی بہترین کوشش، اور دعا کے بعد ہلکان اور پریشان رہنا رب سے تعلق اور یقین میں کمزوری ہے، پھر بس راضی رہنا ہے سب مل جائے تب بھی سب کھو جائے تب بھی، کیونکہ زندگی فقط امتحان گاہ ہے، جس میں ہمارا کھونا، پانا، لینا، دینا، سوچنا، کرنا، رائے قائم کرنا، غرض جنبش تک ہلانا رب کے سامنے ہماری حقیقی ایک تصویر خلق کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔اور جس حکیمانہ الہی سیاست کو ہم اپنے وجود کے اندر قائم رکھے ہوئے ہیں یا کہ کسی اور رب کی عبد بنے ہوئے ہیں، بھلے وہ خواہشات، ہوس، رتبے، اختیار، مردوزن، مفادات کچھ بھی ہمارا رب ہو سکتا ہے کہ انسان کا رب وہی ہے جسکا حکم وہ مانتا ہے اور جسکے اشارے پہ وہ فورا سے اطاعت گزار عبد کی طرح جینے مرنے کو تیار ہوتا ہے اس سے قطع نظر کے وہ خواہش عدل الہی، قوانین الہی، تعلیمات و میعارات الہی کے خلاف تھی یا کہ اسکی پابند سو یہیں انسان ہمیشگی کی پستی یا بلندی خرید لیتا ہے ۔ ۔ ۔

زندگی رب کی یے، رب مالک ہے، انسان کو رب سے ربط بنانا ہے اور اسکے عطا کردہ ہر رشتے، ناطے، وسیلے، علم، تعلیمات، ہنر،غرض جو بھی کچھ ہماری زندگیوں میں ہے وہ سب رب تک یعنی اگر انسان کو عبد خدا کی منزل پہ نہیں لا رہے تو انسان کہیں نہیں ہے ۔ ۔ ۔

اگر انسان یہ سوچتا ہے فلاں شے نہ ملی تو مر جائے گا، فلاں کام نہ ہوا تو ختم ہو جائے گا، بھوک اور افلاس قتل کرینگے رب کو کیونکر یاد کریں، فلاں سے رشتہ نہ ہوا تو مر جایینگے، فلاں دگری نہ ہوئ تو زندگی ختم ہو جائے گی تو یقین رکھیے یہ بے یقینی ہے رب سے دوری ہے اور اصل ھدف زندگی ۔ ۔ ۔

“سب کچھ چھن جائے یا مل جائے دونوں صورت میں رب تعالیٰ سے راضی اور زیادہ مطین اور خوش رہنے کی ھقیقی، فکری، عملی، تربیت ہے ۔ ۔ ۔”

یہ سب کھونا پانا، مشکلات، رنج و غم سب انسان کو رب تعالیٰ کی رضا میں راضی اور مطیمن رہنے ہی کی تربیت کرتے ہیں اور وجود انسانی میں” دل ” ،رب تعالی کی سلطنت ہے جس پہ فقط اس کا حق ہے، کوئی بھی انسان، یا دنیاوی شے اگر اس سلطنت پہ قابض ہے تو یہ قابل تشویش بات ہے یہ دل فقط سلطنت رحمان ہے اس پہ سوائے رب تعالیٰ کے کسی کا حق نہیں یہ دل کو خواہشات، لغزشوں، حتی منفی سوچوں تک سے پاک رکھنا بہت بڑی جدوجہد ہے کیونکہ یہ آپکی زندگی کو یا تو ہمیشگی کی کامیابی سے جوڑ دینگے یا پھر ہمیشگی کے نقصان سے۔ ۔ ۔انتخاب انسان کا ہے کہ وہ کیا منتخب کر رہا ہے ۔ ۔ ۔اور عبد رب کا سفر کر رہا ہے یا کہ عبد خواہشات، نفس، ہوس، حرص و ریا، دنیا کا۔ ۔ ۔

انسان کے وجود کی سلطنت پہ فقط رب تعالیٰ کا عشق جچتا ہے، باقی ہر لزت کو فنا ہے سو انسان کو اپنی شعوری تعمیر اسی انداز سے کرنی چاہییے کہ محبت کرے تو بھی عشق رب میں، اور بغض رکھے تو بھی رب تعالیٰ کی قوانین کی پامالی کے سبب ۔ ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ انسان اسوقت کہاں کھڑا ہے ۔ ۔ ۔؟
The
اور اس کا وجود رحمان کی طرف سفر کر رہا ہے؟

یا کہ خواہشات کے طوفان کی طرف ۔ ۔ ۔؟

اور وہ رب کے پاس ایک پاکیزہ مطمئن وجود لیکر جا رہا ہے یا کہ کسی حیوانی شکل میں اگلے سفر کی جانب محو سفر ہے کہ عمل صالح عبد رحمان اور اس رب کے بیچ ربط کا زریعہ ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ انسان کے پاس کونسی پونجی ہے، وہ کیا لیکر جا رہا ہے ۔ ۔ ۔!