ہمیں اشد ضرورت ہے کہ ہم سوچیں کہ انفرادی، اجتماعی قومی و ملی، اھداف کیا ہیں اور کیوں ہیں!
کشمیر، فلسطین، یمن، برما، بحرین، عراق، افغانستان اور غرض ہر ملک جہاں مسلمان ہیں اس وقت ازیتناک دور سے گزر رہے ہیں اور ایک ایکظلم اور ایک ایک کہانی بیان کی جائے تو روح پارہ پارہہو جاتی ہے اور خود پاکستان میں جو ہر سمت بڑھتی مایوسی، بے حسی، ظلم اور اجاڑ ہے آخر ہم کس کے انتظار میں ہیں اور کیوں؟
جب کوئی مسیحا اتاہے ہم اس کو قتلکر دیتے ہیں اور پھر واویلاکرتے رہتے ہیں اور جب زمہ داری کی بات ہوتی ہے تو ہمارا وطیرہ ہے کہ یہ سب دوسروں کے کام ہیں ہم کیوں پرائ آگ میں جلیں جبکہ گھر کے مسائل خود حل کیے جاتے ہیں نہ کہ غیر اور دشمنوں سے مدد کے لیے کہا جاتا ہے
ہمارے ہر سمت ظلم ہی ظلم ہے بھلے ایک عام پاکستانی ہو جو اپنے دوستوں ہی کے ہاتھوں قتل ہو جائے، یاکہ کتے کی ویکسینیشن نہ مل ے پہ ماں اپنے ہی بچے کو تڑپ تڑپکہ مرتے ہوئے دیکھے، یا کہ کتے گلیوں میں آزاد پھرتے ہوں اور معصوم انسانوں اور پھولوں کو نوچ کھا کر پھینک دیتے ہوں، یا کہ لوگ خود کشیاں کر رہے ہوں اپنے بیوی بچوں سمیت بھوک، ننگ و عار سے تنگاکر، یا کہ بارشوں کے موسم میں جوان اور معصوم شہری سڑکوں پہ کرنٹ کھاکھا کے مرتے ہوئے دکھائ دین، یا کہ معصوم بچوں کو ساتھ رکھا جاتا ہو تاکہ جنسی آگ مٹائ جائے، یا ہاسپٹل میں وارڈ بوائے کو جیسے ہی موقع ملے وہ عورت پہ اپنی ہوس لیے حملہ آور ہو جائے، کسی مدرسے کے 11 سالہ بچے کو خود کشی کا لیبل لگا کر ہوس کا نشانہ بنا دیا جائے، یا کہ استاد اپنی درندگی کے اظہار کے لیے اسکو مار مار کر خون خون کردے حتی کہ وہ مر جائے اور ماں باپ اس مولوی کو معاف کر دیں، یا کہ استاد کو نوجوان پکڑ کر زدو کوب کرتے ہوں،
ٹرین میں سینکڑوں جانیں جل کہ راکھ ہو جائیں یا کہ آگ جمع کرتے ہوئے لالچی عوام آگ یو جائیں، جہاں تربیت تعلیم ہنر کا نام نہ ہو، صدیوں پرانے گٹر اور نالیاں آج بھی ویسے ہی بہتے ہوئے دکھائ دیں،
یا کل کشمیر میں میری مائیں بہنیں بیٹیاں جوان بچے محبوس ہوں اور جوان بچے اغوا کر لیے جائیں بھوک پیاس علاج دوا کے بغیر ان جو اندر بندکر کے ہی قتل کر دیا جائے، کہ اقوام عالم مردہ ہو یا کہ عوام بھی چپ چاپ تماشائی بن جائے، جہاں معصوم لوگ 70 دہائیوں سے نہ ختم ہونے والے عزاب میں مبتلا ہوں اور کوئی راہ حل نہ دکھائی دے رہا ہو
یا یمن میں انسانوں پہ قحط مبتلا کر کے ہڈیاں کر دیا جائے اور بھوک افلاس اور ظلم کے بازار گرم ہوں یا کہ کوئی بھی اسلامی ملک ہو کہ جہاں پہ ظلم کے آثار نہ یوں
آخر ان نہ ختم ہونے والی ظلم کی داستانوں کو راہ حل کی جانب کس نے نوڑنا ہے؟
کیا ایک انسان اتنا ہی کمزور ہے؟
کیا انسان اتنی طاقت جرات و شجاعت بھی نہیں رکھتے کہ یہ فیصلہ ہی کر سکیں سوچ سکیں کہوہ انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے کیا اھداف زندگی رکھتے ہیں اور کیوں؟
اور انکی منزل کیا ہے؟ اس سفر کے لیے کو سے راستے درکار ہیں؟
کون سے ارادے، کونسی تکالیف اس راہ میں ہیں جن کو عبور کرنے کے لیے کون سے طریقے چاہییے ہیں نکلنے کے لیے؟
کیسے وہ خود کو مایوسی اور ظلم کی دلدل سے کھینچ کر نکال سکتاہے؟
کسطرح جینے کا ثبوت دے سکتا ہے؟
کسطرح بجائے کسی بھی سیاسی، لسانی، گروہ، تنظیم، فرقے، مزہب، یا کسی بھی ظالم کے آلہ کار بننے کی بجائے خود ایک منفرد، سچی حقیقی مکمل آواز بنے گا خود کو تشکیل دے گا خود کو تعمیر کرے گا اپنے گردو نواح کو تعمیر کرے گا اپنی پیٹ، ہوس، شہوتوں اور رتبوں اور اختیارات دے ابھر کر جینے والا آخر کوئ تو بنے گا؟
کوئی تو ہو گا جس کے لیے میں سے زیادہ اس ملت اس قوم اور انسان کے دکھ تکلیف دیتے ہونگے کوئی تو مرد حر اس قوم میں بھی ہوتے ہونگے کوئ تو اپنی سیرت، زبان عمل سے اسوہ رسول کا عاشق ہو گا، کوئی تو اس میدان عمل میں انسانیت کا حاصل ہو گا کہ جسکی منزل قربت رب میں انسانیت کی تعمیر اور انسانوں کو اس جہالت و بےبسی کے سمندر سے نکالنے کی جرات ہو گی…
کسی میں تو ایک انسان بستا ہو گا جو اس حیوانیت کو سدھار کے انسان تعمیر کر سکتا یو گا کوئی تو ہو گا ہی جو اس بستی حیوان میں انسان نما ہو گا جسکی زات کا نور انسان کشءد کر سکے گا؟
ہم کبھی بھی دوسروں سے مدد مانگ کر بلک بلک کر واویلا کر کے اپنے نسئلے حل نہیں کر سکتے آج ہر فرد معاشرہ جو ایکٹو مثبت عملی طور سے میدان عمل میں آکر اپنا فرض مستعدی سے ادا کرنے کی ضرورت ہے اس حیوانی معاشرے کے انسانوں کو بہت پر زور انداز سے اھداف کو سوچنا یو گا کہ ہم کیسا مستقبل چاہتے ہیں؟
اور کیوں چاہتے ہیں؟
اور ان تک پہنچنے کے لیے کون جون سی راہیں ہیں اور کون کون سے اقدامات کی فوری ضرورت ہے یہ راستہ طویل صبر آزما ہے پر موت سے پہلے کم سے کم بھی انسان جو ابابیل جتنا حوصلہ ضرور رکھنا چاہییے جو اپنی چونچ کے پانی سے آگ بجھانے کی پوری کوشش کرتی ہے بھلے آگ بظاہر نہیں بجھ تہی پر وہ لاتعلق، تماشائی، بے حس نہیں کم سے کم بھی چونچ کے پانی جتنی کوشش وہ اخلاص سے کرتی ہے اور کوشش کرتی ہے لاتعلق بے حس نہ بیٹھی رہے کہ رب کے سامنے اپنے حصے کی کوشش کو دکھا سکے، آج بھی ہر فرد معاشرہ کو بہت حوصلے، یقین، امید بر خدا رکھ کہ فقط اسکی خاطر اس معاشرے کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینا یو گا جیتے جی اپنے جینے کا ثبوت دینا ہو گا،
ہو پل ہر لحظہ ہر ان کوشش کرنی یو گی کہ رب نے کوشش فرضکی ہے نہ کہ نتیجہ ایک دوسرے سے محبت کیے بنا ایک دوسرے کو رب کی مخلوق سمجھے بنا خود کی تعمیر کیے بنا ارد گرد کی تعمیر نہیں ممکن اور ہمیں بیک وقت کئ محازوں پہ جنگ لڑنی ہے
پہلی جنگ خود کی اصلاح، تربیت اور خود میں نور کی ایجاد علم معرفت اور تربیت اور
دوسرا کام کم سے کم بھی میرے گھر گلی محلے میں کوئی جاھل ان پڑھ غیر تربییت یافتہ بہترین انسان بننے سے نہ رہے، ہنر رزق کے لیے اور تعلیم روشنی کے لیے ہر محلے میں لائیبریرءز ہوں علم پہ بات یو اخلاقیات رسول کو بطور اسوہ لیا جائے اور ہر شخص اپنے کردار زباناور افکار سے اس عشق الہی اور عشق رسول جا ثبوت اپنی طہارت نفس و زبان سے عمل سے دے تاکہ یہ معاشرہ زندگی کی جانب لوٹ سکے ۔
پھر اپنے اجتماعی قومی اور ملی مسائل پہ سنجیدگی سے حل سوچے جائیں جو واقعی حل ہوں بھیک نہ ہو جو دشمنوں ہی سے طلب کی جائے کہ قاتل سے مدد مانگنا جہالت ہے ہر کوشش اتنی سنجیدگی سے کی جائے کہ انسان زندہ رہنے والوں کی طرح زندہ رہ سکیں
اتنے کڑوڑوں زہن ملکر اپنے ملی قومی اور اجتماعی مسائل حل نہ کر سکیں آخر کیا وجہ ہے اسکی؟
کیا ہم زہنی طور سے مفلوج ہیں یا اخلاقیات کے اعتبار سے مردہ یا کہ ضمیر مردہ آخر ان کڑوڑوں میں چند ایک بھی نہ ہونگے جو زندہ ہوں اور سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں؟
ہمیں حل سوچنے والے اور ان کے مطابق حل کرنے والے جو میدان عمل میں ہوں چاہییے ہیں جو دشمن کے آلہ کار بن کر فیض کے گیت نہ سناتے ہوں بلکہ ملتقوم ملک کے بیٹے بیٹیاں بن کر اس دھرتی اس ملت اس قوم کو سدھارنے کا عزم رکھتے ہوں ۔ ۔
ہم بک جاتے ہیں جبھی خرید لیے جاتے ہیں اس ملت اس قوم و ملک جو صرف وہی زندہ کر سکتے ہیں جنکے نفوس کی قیمت سوائے قرب الہی اور قرب رسول کے کچھ نہ ہو ایسی مائیں ایسے باپ چاہیییں جو اس معاشرے کو پاکیزہ نسل دے سکیں جو کہ سیرت اہلیبیت رسول اور اسوہ رسول کو مکمل بصیرت اور آگہی اور گہرائی کے ساتھ نہ صرف سمجھتے ہوں بلکہ انکے وجود اس درد اور عشق سے گندھے ہوں جو درد امام حسین علیہ السلام کو کربلا لے آیا تھا وہ کردار وہ حسن اخلاق وہ ظرفییت وہ افکار وہ طہارت نفس ہی اس قوم کو بیدار، متحرک و باعمل بنا سکتی ہے ۔ ۔
زرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ہمیں اس مٹی کو طہارت سے اخلاص سے نم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ۔ یہ قوم الجھا دی گئ ہے متعدد فتنوں میں کہ کہیں یہ اس حسن تک سفر کرنے نہ لگ جائیں جو انکو پایندہ رکھ سکتا ہے ہم میں سے ہر ایک کو اس زندہ روح کو جگانے کی ضرورت ہے جو لاتعلقی کے لحاف اوڑھ کر سو رہی ہے.