کیوں تیرا دریا آسودہ ہے کیوں یہ صحراکی طرح ہو چکا ہے کہ جس میں کوئی موج نہیں ہوتی، کوئی لہر نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔جہاں ہر شے رک جاتی ہے ۔ ۔ ۔
وہاں حرکت نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔
تو تو بحر تھا، سمندر تھا کیا ہو گیا تجھے ۔ ۔ ۔
کس نے تجھے صحرا کر دیا کچھ تو ہوش کر سوچ سمجھ، غور کر ۔ ۔ ۔
تو تو دریا تھا کس نے تجھ سے تیرا پانی چھین لیا، کون تیری موجوں کو لے اڑا، کس نے تیرے دریا کی وسعت کو کم کر دیا ۔ ۔ ۔
وہ دریا، وہ سمندر کے جسکی موجیں، جسکی لہریں کوئی چرا لے جائے نہ وہ دریا رہتا ہے نہ سمندر ۔ ۔ ۔
اے میری ملت کے جوان یہ ملت تو ایک بحر بیکراں تھی ۔ ۔ ۔ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھی کون اس کی رعنائیوں اسکی بپھری لہروں کو لے اڑا ۔ ۔ ۔
کیا کیا تو نے کہ یہ سمندر اپنی لہروں کو کھو چکا، یہ دریا اپنا رخ ۔ ۔ ۔اپنی وسعت کھو گیا ۔ ۔ ۔
یہ تن خاکی، یہ ملت اسلامیہ ۔ ۔ ۔
یہ کائنات اسکی روح کو کون لے اڑا کہ اسکی روح تو دین تھی ۔ ۔ ۔
کس نے چرا لیا اس میں سے دین کو کہ پوری ملت میں دینی رسمیں، رواج، نمازیں، حج، عمرے، زکوت افعال تو دکھائی دیتے ہیں پر ان سب کی روح کون لے اڑا کہ جو نمازیں ہمیں معراج تک نہ پہنچا سکیں ۔ ۔ ۔
جو حج ملت اسلامیہ کے درد نہ بتا سکیں ۔ ۔ ۔
یہ کیساحج کرتا ہے تو کہ جس میں امت کی روح ہی موجود نہیں ہوتی کیا یہ دین ثواب کا پیٹ بھرنے کو آیا تھا۔ ۔ ۔؟
یا کہ مرنے کے بعد جنت کمانے اور موت کہ وقت ایمان طلب کرنے ۔ ۔ ۔؟
کیا دین و ایمان کی ضرورت اس زندگی کو نہیں؟
کیا زندگی کو جنت بنانے کی جہد کی ضرورت نہیں؟
کیا دین محمدی کو ملت و امت کی ضرورت نہیں؟
یہ کیسا دین پڑھا لیا تو نے جسکی روح ہی موجود نہیں ۔ ۔ ۔؟
یہ بے روح دین جسکی روح ہی موجود نہیں یہ کس نے پڑھا دیا تجھے ۔ ۔ ۔؟
یہ کیا ہے جو دین کو سمجھاتے، پڑھاتے، وقت اس سے چھین لیا گیا اور فقط رسموں، رواجوں اور اعداد کے ہاتھوں میں اس کے استعمال کو دین سمجھ لیا گیا؟
یہ دین کا فلسفہ، یہ حکمت و دانش دین، یہ فلسفہ عبادت یہ روح اطاعت کس نے چھین لی تجھ سے یہ کون لے اڑا تجھ سے تیری خودداری، تیری دانش، تیری دور اندیشی، تیرے الہی اھداف کون چھین لے گیا تجھ سے۔ ۔ ۔؟
یہ کس نے رچایا ہے کھیل ایسا کہ تیرے قلب و روح اندھے ہوگئے ۔ ۔ ۔اور تونے فقط چند حرکات و سکنات کی پیروی اور بے عملی کو، غیر زمہ داری کو دین سمجھ لیا ۔ ۔ ۔ کیسے ہو گیا یہ سب ۔ ۔ ۔؟
یا کہ تیری سمجھ ہی سطح سے ابھر نہ سکی یا کہ خریدے ہوئے دین بازوں نے اپنی دین گری سے اسکی روح چھین کر توہمات، رسومات، آباء افکار پہ تجھے لگا دیا یقین و رضا، شجاعت و بلند نگاہی، اعلی ظرفی امانت و صداقت، زمہ داری کے ستون جنہیں بننا تھا کون ممولا خاک بنا گیا تجھے ۔ ۔ ۔؟
کہ نماز تو پڑھتا ہے پر بے حیائی، بے غیرتی، بے ہمتی، بے یقینی، بے پرواہی، سے کیوں دور نہیں ہو پاتا ۔ ۔ ۔؟
کون لے اڑا تیری جرات فکر، جرات عمل، حریت فکر حریت عمل، کون چرا لے گیا تجھ سے تیری پاکدامن کے گوہر ۔ ۔ ۔کس نے چرا لی تجھ سے شمع فکر، کس نے ڈبو دیا تیرے عقل و شعور کو ۔ ۔ ۔؟
کون لے اڑا تجھ سے علم کے ظہور کو ۔ ۔ ۔؟
کس نے چھین لی شمشیر علم تجھ سے ۔ ۔ ۔؟
کون لے گیا تیرا جرات اختیار و ارادہ ۔ ۔ ۔؟
کس نے کر دیا پست تیرے عمل کی تحریک کو؟
کس نے چھین لی تجھ سے گویائ جو حق و بصیرت و آگہی و رشد کی شفاف سبیل ہو ۔ ۔ ۔؟
اے میری ملت کے جوان آٹھ، دیکھ بیدار ہو تو سہی کے کیا کیا تیرا خسارہ ہے کہ دشمن رب نے تجھے کس زیرک انداز سے قتل کیا ہے کس کس طریقے سے مارا ہے ۔ ۔ ۔
کہ آج تیری حالت اس پر کٹے پرندے جیسی ہو چکی ہے کہ جسکے مالک نے اسکے پر کاٹ رکھے ہوں اور زخمی حالت میں کئ دن تک بھوکا پیاسا رکھا ہو اب وہ دو ٹکڑے منہ پہ مارتا ہے اور تیری منہ سے باہر نکلی زبان روٹی کے لقمے اور دو گونٹھ پانی کے سوا کچھ طلب کرنے لائق ہی نہیں رہی اور تو ایسا ہوس کے گرداب میں پھنس چکا ہے کہ تجھے یہ ناممکنات میں نظر آتا ہے کہ طہارت فکر و عمل، ارادہ و اختیار، قوت انتخاب بھی کوئی شے ہے ۔ ۔ ۔
تجھے کہ جسکو ایک جنگجو سپاہی کی مانند میدان عمل میں اتر کر لڑنا تھا تو تو اپنے ہی نفس کی قید و ضروریات میں ایسا پھنسا دیا گیا کہ ہاتھ نکالو تو پیر پھنستا ہے پیر نکالو تو نگاہ، نگاہ کو آزاد کرو تو خلوت میں تو ہوس و پستی کی زلت کے گڑھے میں اوندھے گرا پڑا ہے کہ کوئی اٹھانا، جگانا بچانا بھی چاہے تو اتنا بے سدھ و غرق ہو چکا ہے کہ تجھ سے ہاتھ بھی نہیں اٹھتا، سوچنے تک کو بھی تو عجیب سمجھتا ہے تجھ کو بے یقینی کے گورکھ دھندے نے اپنا اسیر کر رکھا ہے اور کوئی کھینچ کر یقین کی منزل پہ لانا بھی چاہے تو تو اسی کا دشمن ہونے لگتا ہے کہ تیرے وجود کی سلطنت سے طہارت فکر، پاکی، گی نفس، شفافیت فکر کے سبھی رنگ و زائقے سیاہی میں گھل چکے ہیں اور تو اس سیاہی کا اسیر ہو چکا ہے ۔ ۔ ۔
اے جوان ملت آٹھ دیکھ اپنا نقصان تو دیکھ، اتھ کہ بچنے کی کچھ تو کوشش کر، کہ کم سے کم تیرا نام بچنے کی کوشش کرنے والوں ہی میں لکھ دیا جائے کہ رب کا قانون ہے کہ وہ کبھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا کہ جو خود زمہ داری نہ لے خود کی جو خود خود کو بدلنا نہ چاہے ۔ ۔ ۔
اور ایسی اقوام جو رب سے محبت نہیں کرتیں مخلصانہ طور پہ رب تعالی انکو نیست و نابود کر کے نئ اقوام لاتا ہے کہ پھر جن سے رب محبت کرتا ہے اور جو رب کی عاشق ہوتی ہیں اور اسکی جانب عاشقانہ، با بصیرت و شجاعانہ سفر کرتی ہیں اے میری ملت کے جوان ہوش کر اٹھ اپنے اندر سے اپنی عصا کو نکال جو تیری قوت فکر قوت ارادہ قوت انتخاب ہے اسکو علم کے گوہر سے جوڑ تفکر کے لحظوں سے اپنی تعمیر کر اپنی عمارت کو مستحکم کر اٹھ کھڑا ہو، بیدار ہو کہ تو یہ کر سکتا ہے اور تجھے رب نے یہ سب صلاحیتوں کو دیکر بھیجا ہے کہ تو خود کو بدل سکتا ہے، تو ہر پستی کو نہ کہ سکتا ہے، تو ہر شکل کے طاغوت و شیطان کو شکست دے سکتا ہے تو ایکبار ایسا ارادہ تو کر ۔ ۔.
ایک بار رب کی قربت چاہ کر تو دیکھ۔ ۔ ۔
ایک بار رب کی توحید کو روح میں اتار کر تو دیکھ ۔ ۔ ۔
شمشیر لاالہ کو تو ایکبار اٹھا کر تو دیکھ ۔ ۔ ۔