ہوائی جہاز اور ریل گاڑی کو دنیا بھر میں جہاں محفوظ سفری سواری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے وہاں پاکستان میں یہ خوف کی علامت بنتا جا رہا ہے کبھی تو چلتی ٹرین کی تین چار بوگیاں آگ کی لپیٹ میں آجاتی ہیں تو کبھی جہاز کے کریش ہونے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں ان حادثات پر کتنے خاندانوں کی زندگیاں اجڑ جاتی ہیں کتنے بوڑھے والدین کا آخری سہارا ان سے بچھڑ جاتا ہے اس دکھ اور تکلیف کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے اگر حادثات کی شفاف انداز میں تحقیقات کی جائیں اور اصل مجرموں کو بے نقاب کیا جائے تو کافی حد تک لواحقین کے دکھوں کا مداوا ہو سکتا ہے اور آئندہ کے لیے کسی بڑے حادثے سے بھی بچا جا سکتا ہے لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہر ادارے میں مسئلے کے حل کی بجائے اس کو دبانے اور فائل بند کرنے پر زور دیا جاتا ہے 22 مئی 2020 کا دن ہوائی جہاز کا سفر کرنے والوں کے لیے بہت المناک ثابت ہوا جب پی آئی اے کا مسافر طیارہ ایر بس 320 ایر پورٹ سے ملحقہ رہائشی علاقے ماڈل کالونی پر گر کر تباہ ہوگیا جہاز میں عملے کے 7 ارکان سمیت 99 افراد سوار تھے جن میں 97 افراد لقمہ اجل بن گئے اور 2 بچ جانے والے افراد کو موت چھو کر گزر گئی اس حادثے میں علاقے کے 22 گھر بھی متاثر ہوئے جن پر جہاز کا ملبہ گرا دنیا بھر میں قوانین موجود ہیں جن میں کالونیاں ائیر پورٹ کے زیادہ قریب بنانے کی اجازت نہیں دی جاتی اکثر پرندے رزق کی تلاش میں آبادیوں کا رخ کرتے ہیں اس طرح کسی پرندے کے جہاز سے ٹکرانے سے جہاز کو حادثہ پیش آسکتا ہے ائیر پورٹ سے اتنے قریب عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے باقاعدہ اجازت نامہ لینا پڑتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے رن وے سے چند میڑ کے فاصلے پر تین منزلہ عمارتوں کی تعمیر کیسے ممکن ہوئی اور کس نے اس کی اجازت دی ؟ ائیر کرافٹ کریشز ریکارڈ کے مطابق 70 سالہ تاریخ میں اب تک پاکستانی فضائی حدود میں 83 فضائی حادثات پیش آچکے ہیں جب بھی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو عام طور پر دو ہی سوال زہن میں آتے ہیں طیارے کی تکنیکی حالت کیسی تھی ؟ یعنی طیارہ اڑان بھرنے کے لیے مکمل فٹ تھا – پائلٹ کی ذہنی اور جسمانی فٹنس کیسی تھی ؟ یا پھر پائلٹ کو کنٹرول ٹاور سے مناسب ہدایات نہیں مل سکیں پی آئی اے کے سربراہ ائیر مارشل ارشد ملک نے حادثے کے فوری بعد ایک پریس کانفرنس کی اور کہا جہاز میں کوئی فنی خرابی نہیں تھی ارشد ملک صاحب نے تحقیقاتی رپورٹ آنے سے پہلے ہی فیصلہ سنا دیا کہ جہاز مکمل فٹ تھا پاکستان ائیر لائینز پائلٹس ایسوسی ایشن ( پالپا ) کے سیکرٹری جنرل کیپٹن عمران ناریجو کا کہنا ہے یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پی آئی اے سیفٹی سٹینڈرڈ پر عمل کرنے کے پائلٹس کے مطالبے کو ہمیشہ نظر انداز کرتی رہی ہے اور ہمیں سیفٹی کوڈز پر عمل درآمد کے مطالبوں پر انتظامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ہم جب بھی فضائی سفر کے تقاضوں کو پورا کرنے پر اصرار کرتے ہیں تو ہمیں پریشر گروپ قرار دے کر چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے محض پیسہ کمانے کے چکر میں ضروری حفاظتی اقدامات کے بغیر فلائٹس کی روانگی تشویش ناک ہے ! جس طرح ان دونوں بیانات میں ذمہ داروں کا تعین نہیں ہو سکا اسی طرح آج تک کسی فضائی حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ میں اصل مجرموں کو بے نقاب نہیں کیا گیا کبھی حادثے کی ذمہ داری خراب موسم پر ، کبھی پرندے پر اور کبھی پائلٹ پر ڈال دی جاتی ہے کیونکہ یہ تینوں ہی اپنا دفاع نہیں کرسکتے ہمیشہ ادارے کی خراب کارگردگی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس کی ساکھ متاثر نہ ہو جبکہ جعلی ڈگریوں پر افراد کو ملازمتیں دینا اقرباء پروری سیاسی برتیاں رشوت جعلسازی اور خود پی آئی اے کی انتظامیہ ادارے کی تباہی کی ذمہ دار ہے ابتدائی سرکاری رپورٹ سے جو بات ابھی تک سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ طیارے کی بلندی 3000 سے 35000 فٹ تھی طیارہ ایک دفعہ رن وے سے ٹکرایا ہے اس کے لینڈنگ گیئر نہیں کھلے رن وے سے جب انجن نے رگڑ کھائی تو ان سے دھواں نکلنا شروع ہوگیا اور پائلٹ نے طیارے کو اسی پوزیشن میں ایک بار پھر فضا میں بلند کیا اس کے بعد زوردار دھماکہ ہوا اور جہاز کریش کر گیا اگر طیارہ فٹ تھا تو لینڈنگ گیئر کیوں نہیں کھلے یا پھر پائلٹ لینڈنگ گیئر کھولنے بھول گیا تھا ادارے کے نظام اور پیشہ وارانہ تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ماہرین نفسیات کا تقرر کیا جائے جو پائلٹ سے گفتگو کے ذریعے یہ اندازہ لگا سکے کہ پائلٹ کی ذہنی کیفیت کیسی ہے کیا وہ طیارہ اڑانے کا اہل بھی ہے یا نہیں حادثے کا ذمہ دار ایک شخص نہیں ہوتا بلکہ اس ادارے میں رائج غلط نظام ہوتا ہے جس کی سزا عوام کو بھگتنا پڑتی ہے انصاف کا ووٹ لے کر آنے والی حکومت کو اب ہر ملکی ادارے میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا 5 ،10 لاکھ کا معاوضہ کبھی قیمتی انسانی جانوں کا متبادل نہیں ہوسکتا