علامہ اقبال
نام : محمد اقبال
والد : شیخ نور محمد
ولادت : ٩ نومبر ١٨٧٧ء (مطابق ٣ ذی قعدہ ١٢٩٤ھ )
جائے ولادت : سیالکوٹ , پاکستان
خاندان : اقبال کے آباء و اجداد قبول اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے۔ شیخ نُور محمد کشمیر کے سپرو برہمنوں کی نسل سے تھے۔ غالباً اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک جدّ نے اسلام قبول کیا۔
ابتدائی تعلیم : اقبال بسم ﷲ کی عمر کو پہنچے تو انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے, اور یہاں سے اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا, سید۔میر حسن صاحب کے پاس اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا۔ تین سال گزر گئے, اس دوران اقبال اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھنا شروع کر دیا۔
٦ مئی ١٨٩٣ء میں اقبال نے اسکاچ مشن اسکول سے میٹرک کیا اور ١٨٩٥ء میں ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور آ گئے.
اعلیٰ تعلیم : لاہور کے گورنمنٹ کالج میں انگریزی فلسفہ و عربی کا مضمون لیا اور ١٨٩٨ء میں بی اے پاس کیا ساتھ میں اورینٹل کالج سے مولانا فیض الحسن صاحب سے عربی زبان میں بھی کسب فیض کیا .
اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیا.
یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ کا تعلق میسّر آیا. جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کر دیا.
مارچ ١٨٩٩ء میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اوّل آئے.
٢٥ دسمبر ١٩٠٥ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیےانگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا.
٤ نومبر ١٩٠٧ء کو جرمنی کے میونخ یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی, ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آئے۔ جولائی ١٩٠٨ء میں بیرسٹری کی مکمل کی اور وطن واپس آ گئے ۔
اس کے علاوہ مختلف ڈگریاں حاصل کی.
شاعری کی شروعات : نومبر ١٨٩٩ء کی ایک شام ایک محفلِ مشاعرہ میں شریک ہوئے اور اپنی ایک غزل کے اس شعر پر پہنچے کہ :
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
تو اچھے اچھے استاد اُچھل پڑے۔ بے اختیار ہو کر داد دینے لگے۔ یہاں سے اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا.
خدمات : ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال ١٣ مئی ١٨٩٩ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہو گئے.
ابتدا میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہورمیں تدریس کے فرائض سر انجام دیے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا.
لیکن وقفہ وقفہ سے مختلف کالجز اور یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے لیکن وکالت کو چھوٹنے نہیں دیا.
اعزاز و خطابات : ١٩٢٢ء میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔
اقبال انجمن حمایت اسلام کے اعزازی صدر بھی رہے۔
رکنیت : علامہ اقبال بے شمار ملی ادبی سیاسی اور سماجی تنظیموں کے رکن رہے مختلف اوقات میں اورینٹل اینڈ آرٹس فیکلٹی، سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے ارکان بھی رہے۔ ١٩١٩ء میں اورینٹل فیکلٹی کے ڈین بنائے گئے۔ ١٩٢٣ء میں یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی، اسی سال پروفیسر شپ کمیٹی میں بھی لیے گئے.
آل انڈیا مسلم لگ کے رکن عاملہ رہے .
اس کے علاوہ بھی بہت سی تنظیموں کے رکن رہے.
تصانیف
نثر
علم الاقتصاد – ١٩٠٣ء
فارسی شاعری
اسرار خودی – ١٩١٥ء
رموز بے خودی – ١٩١٧ء
پیام مشرق – ١٩٢٣ء
زبور عجم – ١٩٢٧ء
جاوید نامہ – ١٩٣٢ء
پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق – ١٩٣١ء
ارمغان حجاز (فارسی – اردو) – ١٩٣٨ء
اُردو شاعری
بانگ درا – ١٩٢٤ء
بال جبریل – ١٩٣٥ء
ضرب کلیم – ١٩
انگریزی تصانیف
فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء – ١٩٠٨ء
اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو – ١٩٣٠ء
وفات : ٦١ سال کی عمر میں ٢١ اپریل ١٩٣٨ء کو روح قفص عنصری سے پرواز کر گئی .
طوالت کے خوف سے علامہ اقبال سے متعلق بہت سے اہم موضوع کو قصداً نہیں چھیڑا گیا ہے .