ممبئی (نمائندہ خصوصی) محمد یوسف خان عرف دلیپ کمار 98 برس کی عمر میں اللہ کے حضور پیش ہوچکے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے ماضی سے جڑے قصے میڈیا پر دہرائے جا رہے ہیں جو ان کی یادوں کو تازہ کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ایسا ہی ایک قصہ ان کے پاکستان کے اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ نشانِ امتیاز سے بھی جڑا ہوا ہے۔
90 کی دہائی وہ وقت تھا جب ممبئی شہر میں شیو سینا کا طوطی بولتا تھا اور فرقہ وارانہ بے چینی عروج پر تھی۔ سنہ 1993 میں ممبئی میں فسادات ہوئے تو دلیپ کمار نے اپنے گھر کے دروازے ریلیف ورکرز کیلئے کھول دیے۔ ان کے گھر سے شہر میں ریلیف کا کام کیا جاتا رہا۔
سنہ 1998 میں پاکستان کی حکومت نے دلیپ کمار کو اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ نشانِ امتیاز سے نوازا ۔ انہیں یہ ایوارڈ ملنے کے کچھ ہی عرصے بعد کارگل کی جنگ چھڑ گئی جس کے باعث دلیپ کمار کو اپنے ایوارڈ کے بارے میں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا کے لیڈر بال ٹھاکرے نے مطالبہ کیا کہ دلیپ کمار پاکستان کا ایوارڈ واپس کریں تاہم انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔
جب پریشر حد سے بڑھ گیا تو دلیپ کمار نے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد واجپائی نے اپنے بیان میں کہا کہ دلیپ کمار کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔
کارگل جنگ کے دوران شیو سینا نے دلیپ کمار سے پاکستان کا سویلین ایوارڈ نشانِ امتیاز واپس کرنے کو کہا تو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے کیا کیا؟
