• Wed. Jul 2nd, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

(نام بڑے اور درشن جھوٹے) تحریر : تبسم صباء کنیز (سادہ باتیں)

Sep 20, 2021

بچپن میں ایک محاورہ سنتے تھے”نام بڑے اور درشن جھوٹے“ مگر کبھی اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا چلونام بڑے والی بات تو ٹھیک ہے مگر یہ درشن چھوٹے والا کیا قصہ ہے؟قدرت جب کسی پر مہربان ہوتی ہے تو اس کو بہت ساری باتوں کے مطلب خود ہی سمجھا دیتی ہے ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہوا،ہوا کچھ یوں کہ مجھے ساہیوال کی ایک نامور دینی درس گاہ دیکھنے کا بہت شوق تھا جس میں ہزاروں طالب و طالبات علم حاصل کررہے تھے، جب کبھی بھی اس کے پاس سے گزر ہوتا دل میں حسرت جاگ جاتی کہ کاش میں اس جامعہ کو اندر سے دیکھ پاؤں۔اللہ پاک نے میری یہ حسرت کچھ اس طرح پوری کی کہ یہ غالباََ 2012؁ء کی بات ہے میرے جامعہ کی کچھ بچیوں کہ سپلیاں آگئی اور سپلی کے پیپروں کے لیے سینٹر وہی جامعہ بنا،سونے پرسوھاگہ یہ کہ ان بچیوں کہ ساتھ جانے کے لیے بھی مجھے منتخب کیا گیا میری خوشی کوئی انتہاء نارہی کیوں کہ میری تو بہت بڑی خواہش پوری ہونے جارہی تھی ہم شام کے وقت ہم جامعہ میں پہنچے مہتمم صاحب نے ہمارے مہتمم صاحب کو متمن کر کہ واپس بھیج دیا کہ بچیوں کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے گا آپ بے فکر ہوکرجائیں وہ توواپس چلے گئے مگر میری خوشی اسی شام ہوا ہوگئی جب پہلے تو کسی نے کھانے کا پوچھا ہی نہیں پر جب تقاضہ کرنے پر کھانا آیا تو یقین کریں ہم کھانے کو کیا کھاپاتے کھانا ہمیں کھانے کو آئے،ایک تو ویسے ہی اتنا بدذائقہ اوپر سے آیا پلاسٹک کی ٹینکی میں تھا پلاسٹک کی مہک دماغ خراب کر رہی تھی ہم لوگوں نے اللہ اللہ کر کے وہ رات بھوکے ہی گزاری اور ان بچیوں کی ہمت کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے جو یہ بدذائقہ اور مضرِ صحت کھانا روز کھاتی تھیں۔تب کچھ سمجھ آیا کہ ”نام بڑے اور درشن چھوٹے“ کاکیامطلب ہوتاہے۔کچھ ایسا ہی واقع پچھلے دنوں پیش آیا،بہاولپور میں ایک وومن وکیشنل انسٹیٹیوٹ کا بڑا چرچا سُنا،سن کر دل میں ایک حسرت سی جاگی کہ کاش میں وہ ادارہ دیکھ پاؤں،اللہ پاک نے میری یہ حسرت بھی پوری کردی فیبرک فیشن ڈیزائنگ کے کورس کے دوران 15 دن کی ٹریئنگ کے لیے میرے حصے میں وہی ادارہ آیا میں بڑی خوش ہوئی کہ چلو یہ خواہش بھی پوری ہوئی مگر یہ کیا پہلے ہی دن ساری خوشی ہوا ہو گئی جب وہاں کی ایک لڑکی کے کہنے پر ٹیچر نے اچانک مجھے بُلا کر انکوائری شروع کردی اپنی بے گناہی کے ثبوت دیکھا کر اللہ اللہ کر کے جان چھوڑ وائی،مگر دوسرے دن پھر حاضرِ خدمت کر کے پھرفرمایا گیا کہ غلطی تمہاری تھی ہماری بچی کی نہیں،تب سمجھ میں آیا کہ یہاں اپنی صفائی میں کچھ کہنابھینس کے آگے بین بجانے والے بات ہے انتظامات اس ادارے کے اتنے اچھے تھے کہ لاکھوں کے فنڈز کے باوجود طالبات سے کمروں کی صفائی کروائئی جاتی ہے اس کے لیے کوئی آیا میسر نہیں،اس موقع پر اس محاورے کا باقی مطلب بھی سمجھ آگیاکہ ”نام بڑے اور درشن چھوٹے“کیا ہوتا ہے۔ویسے اب تو اس محاورے کا مطلب میری طرح آپ لوگ بھی بڑے اچھے طریقے سے سمجھ گئے ہوں گیں اگر اب بھی کوئی کسر باقی ہے تو میں یاد دلادوں کہ پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے غریب عوام کو بڑے بڑے سوہانے خواب دیکھائے تھے پر اس پارتی کے اقتدار میں آنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ خواب بس خواب ہی تھے یعنی یہاں بھی وہی حال ہوا ”نام بڑے اور درشن چھوٹے“۔غریب بھوکا مرتا ہے تو مرے ہمارے باپ کا کیا جاتا ہے،غریب کا چولہا ٹھنڈا ہوتا ہے تو رہے ہمارے باپ کا کیا جاتاہے،غریب کی لاش بے گورو کفن ہے تو رہے ہمارے باپ کا کیا جاتا ہے،او اللہ کہ بندوں کچھ خوفِ خدا ہے یا نہیں؟بڑے بڑے دعوؤں کے پول ایسے ہی کھلتے ہیں۔اربوں کا قرضہ واپس لانے کے دعوئے کرنے والوں نے عوام پرمذید کھربوں کے قرضوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے،مزے کی بات تو یہ ہے کہ احساس پروگرام کے ذریعے صرف معذورں اور نادار مجبور لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے ہٹے کٹے نوجوانوں کو مفت پیسے دے کر ناکارہ بندوں کو اور ناکارہ کر دیا گیا ہے،ہونا تو یہ چاہیے کہ گورنمنٹ ان پیسوں سے کوئی انڈسٹری لگائے اور بے روز گار لوگوں کو مستقل بنیادوں پر روزگار کے مواقع فراہم کرے تاکہ نا صرف ملکی معشیت مضبوط ہو بلکہ 12000 ختم ہونے پر دوبارہ مانگنے کی نوبت بھی پیش نہ آئے۔ویسے یہ تو میرا خیال ہے آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔?