• Tue. Jul 1st, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

”نرگس اورنوری“ تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

Sep 20, 2021

کسی زمانے میں نرگس ہزاروں سال اپنی بے نوری پہ روتی تھی اور اب ہزاروں بے نور نرگس کیلئے رو رہے ہیں۔ نوری دور کہیں اپنے گاؤں بیٹھی حیران اورپریشان ہورہی ہے کہ یہ دنیا کیا سے کیا ہوگئی ہے۔ بڑی مشکلوں کے باوجودچمن میں ”دیدہ ور“ پیدا نہیں ہو رہے بلکہ چمن سے کراچی تک متاثرین مال و زر پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر نوری کی آنکھوں کا نور بے سرور ہوا جا رہا ہے اور اس کی پلکوں سے زندہ رہنے کا خواب دور ہوا جا رہا ہے۔
نوری جیسی ماؤں کے بیٹے پہلے شہر آ کربھول جاتے تھے کہ اُن کی تعلیم کیلئے کس کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا ہے۔ اب وہ اس مشکل سے آزاد ہو گئے ہیں کیونکہ نہ اب اُن کی ماں کے پاس زیور رہ گیا ہے اور نہ ہی اُن کو شہر میں پڑھنے کاشوق رہ گیا ہے۔اگرچہ ہر ماں کوابھی بھی زیور کی بجائے اولاد کی تعلیم کی فکر رہتی ہے اور وہ اسی کو اپنا زیور سمجھتی ہے اوراولاد کو بھی اس زیور سے آراستہ کرناچاہتی ہے مگر اولاد کواب یہ زیور ”راس“ نہیں، اسے مستقبل کی کوئی آس نہیں، علم کی اب پیاس نہیں کیونکہ اس نے مان لیا ہے کہ وہ عام ہے اور بن سکتی کبھی خاص نہیں۔
بہت سے لوگ نوری کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب نوری کا دور ختم ہو چکا ہے اور نرگس کا دور ہے بلکہ دوردورہ ہے۔ نوری سے نرگس کی مسافت طے کرنا اتنا مشکل نہیں مگر نہ جانے کیوں نوری ابھی نرگس بننے سے صدیوں کی دوری پہ ہے۔نوری جانتی ہیں کہ یہ خاکی اپنی فطرت میں بھلے ”نوری“ نہ ہو اور”ناری“ بھی نہ ہو مگر یہ دوسروں کی زندگی ”نار“ بنانے میں یدطولیٰ رکھتا ہے۔ بعض اوقات اس مطمع نظر کو اپنی ترجیح اولاَرکھتا ہے۔کبھی نوری ہمارے گھر کا مرکز تھی تو اب نرگس ہمارے معاشرے کا محور ہے۔شاید یہی ہمارے تہذیبی سفر کی کہانی ہے۔
نوری جانتی ہے کہ لوگ اُسے نرگس کاپھول نہیں اپنی راہوں کی دھول بناناچاہتے ہیں اورپھرعمر بھردھول چٹاناچاہتے ہیں۔ نوری ”طائرلاہوتی نہیں“ مگر وہ جانتی ہے کہ ”جس رزق سے پروازمیں کوتاہی آتی ہو، اُس رزق سے موت اچھی ہے“ لیکن رزق کے بغیر روز روز کاجینا ایک دائمی موت سے بہت زیادہ اذیت ناک ہے اوربندے کوخاک میں ملاتا نہیں خاک کرضرور دیتا ہے۔
نوری کے ہاتھ کی بنی چوری کھا کر اپنا سب کچھ نرگس پر لٹا دینے والے”دیدہ ور“ نہیں بن سکتے ہاں بے گھر ضرور ہو سکتے ہیں۔ نوری اگر جی حضوری سیکھ لے تو نرگس بن جاتی ہے ورنہ یاسیت کا شکار رہتی ہے اورسدا بیمار رہتی ہے۔
کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہمارا آج کا نوجوان اس نتیجے پر پہنچ گیا ہے کہ نوری تو فقط ایک مجبوری ہے زندہ رہنے کے لیے بس نرگس ضروری ہے۔ بعض اوقات بندہ اپنی نوری سے دوری اور کسی کی نرگس کی جی حضوری میں اپنا آپ بھلا بیٹھتا ہے مگرایک روز اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ بندہ نہیں رہا،گندہ ہو گیا ہے مگرجب وہ لٹ لٹا کر واپس آتا ہے تو نوری کو اپنا منتظر پاتاہے۔ہمارے ہاں نوری نہ طلاق لے سکتی ہے نہ دے سکتی ہے۔نرگس طلاقیں کرواتی بھی ہے اور اتراتی بھی ہے۔
بجا ہے کہ”اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے“ مگر نوری بھی تو جنت کا پھول ہے۔اس کا خیال رکھنا بھی توانسا نیت کا پہلا اصول ہے۔حکم خدا،حکم رسول ہے مگر کیا بدقستمی ہے کہ معاشرے کارویہ اس بابت فضول ہے اوربچیوں کی حق تلفی ہی ہرمعاملے میں مروجہ اصول ہے۔
”دیدہ ور“ تو بہت بڑی ہستی ہوتا ہے۔ہمارے چمن میں تواب مناسب ”دھی دا ور“بھی پیدانہیں ہورہا۔کوئی ”دھی دا ور“ جس کوسسر”نامور“سمجھتا ہے ”جانور“ نکل آتا ہے۔ کبھی کبھی”دھی دا ور“ لگتا بظاہر نور ہے نکلتا مگر ناسور ہے۔ یہ ”ور“ اکثر اوقات صرف ایک ”نر“ اور نری ”ٹر ٹر“ہوتا ہے۔نوری کے ذہن میں مگر صرف اگر مگر ہوتا ہے۔ باپ ساری زندگی اپنی ”نوری“کوادھوری اور غیر ضروری ہوتے دیکھتا رہتا ہے مگر کچھ کر نہیں پاتا۔ جس نوری کا باپ بچپن میں مر جائے وہ شادی کے بعد ہمیشہ اس فکر میں رہتی ہے کہ اب کس کے گھر جائے۔ساری زندگی شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے وہ بے گھر ہوتی ہے۔ نوری کامقدرہرپل کی اذیت ہوتی ہے وہ جانتی ہے کہ اگرچہ شوہرکاگھر بھی اس کا گھر نہیں تو دنیا میں اس کے لیے اوربھی کوئی دوسرا”در“ نہیں۔
جس شخص کا مقدر اپنی نوری سے دائمی دوری ہے اس کی زندگی فقط ادھوری اوربے سروری ہے۔ کسی کی زندگی میں اگراُس کی نوری نہ ہوتی تو شاید یہ زندگی بھی اُس کیلئے ضروری نہ ہوتی اوراُسے زندہ رہنے کی اتنی مجبوری نہ ہوتی۔ دور کہیں اک دل ہروقت اپنی نوری کیلئے روتارہتاہے اوروہ دیوانہ یہی سوچتا رہتا ہے کہ نوری کے ساتھ ایسا کیوں ہوتاہے، ایسا کیوں ہوتاہے۔
نوری یا نرگس، اس نسل کی نوری تو شاید اس کشمکش میں رہے اورکوئی فیصلہ نہ کر سکے مگرآئندہ نسل کی نوری اس کشمکش کا کیا فیصلہ کرے گی یہ بات اگرچہ آپ بھی جانتے ہیں اورمیں بھی جانتاہوں لیکن پھر بھی اس بابت آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔
(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر، چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں)

شکریہ نیوز ٹائم