اسلام آباد جیسے خوبصورت شہر میں واقع ”علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی“ کاشمارایشیاء کی بہترین یونیورسٹیز میں ہوتاہے،اسے اگر ایشیاء کی سب سے بڑی فاصلاتی نظامِ تعلیم کی یونیورسٹی کہاجائے توغلط نہ ہوگا،1974ء میں پارلیمنٹ کے ایک قانون کی تحت قائم ہونے والی فاصلاتی تعلیم کی اس یونیورسٹی کا نام ”پیپلز اوپن یونیورسٹی“ رکھا گیا جو 1977ء میں تبدیل کر کے ”علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی“ کردیاگیا،یہ یونیورسٹی ایسے لوگوں کے لیے خوشی کی نوید ثابت ہوئی جوباقاعدہ کسی ادارے میں جاکر تعلیم حاصل نہیں کرسکتے تھے،اس یونیورسٹی کا نصاب تعلیم بہت ذبردست ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مسلسل تبدیلی لا کراسے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیاجا ریاہے اگر میں اس کے کریکولم یا نصاب تعلیم کو اس وقت کا بہترین نصاب کہوں تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہ ہوگی،بہترین ٹیم اور ذبردست نیٹ ورک اس یونیورسٹی کی پہچان ہیں،اس یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طالب علم کے پاس علم دوسری یونیورسٹیز کے طالب علموں سے کسی طرح کم نہیں ہوتا کیونکہ اس کا امتحانی نظام بڑا صاف اور سخت ہے۔اس یونیورسٹی سے ہرسال ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں طالبہ فارغ التحصیل ہوتے ہیں،ان کوڈگریاں بھی ملتی ہیں،مگر اس کے بادجود ان کوعزت نہیں ملتی،نا ہی انہیں کوئی نوکری دینے کوتیار ہوتا ہے اگر آپ ”علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی“ کی ڈگری ہاتھ میں لے کرکسی ادارے میں نوکری مانگنی جاتے ہیں تو پہلے تو سامنے والا بندہ آپ کو اتنی حیرت سے دیکھتا ہے جیسے آپ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں یاکوئی سزایافتہ مجرم۔یاپھر آپ نے اس ادارے سے تعلیم حاصل کرکے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرلی ہویا پھر خدانخواستہ آپ سے کوئی گناہِ عظیم سرذد ہوگیاہو، ”علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی“ سے فارغ التحصیل ہونے والے بندے کو جاہل تصور کیا جاتاہے۔یہ کوئی سنائی سُنائی بات نہیں ذاتی طور پر آزمائی ہوئی بات ہے خود میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتاہے۔حالات وومشکلات کی وجہ سے مجھے درسِ نظامی کے ساتھ عصری تعلیم کے لیے ”علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی“کا انتخاب کرنا پڑا۔شھادیۃ عالمیہ (تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان لاہور بورڈ) اور بی اے،بی ایڈ(علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی) سے اچھے نمبروں میں مکمل کرنے کے بعد جب ڈگریاں ہاتھ میں لے کر روزگار کی تلاش میں میدان عمل میں نکلی تو پتہ چلا کہ میں نے تو آج تک صرف کاغذ کے ٹکڑے اکٹھے کیئے ہیں جن کی نا کوئی قیمت ہے اور نا اہمیت۔ہرھگہ سے یہ ڈگریاں میرے منہ پر اس طرح ماری گئیں کہ مجھے اپنے پڑھے لکھے ہونے پہ شرمندگی ہونے لگی،اسلامی اداروں اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی ڈگری آپ کو اور کچھ سیکھائے یا نا سیکھائے ذلت سہنا ضرور سیکھادیتی ہیں،یہ میراپانچ سال کا ذاتی تجربہ ہے۔آپ بھی اگر اس ادارے سے تعلیم یافتہ ہیں تو نوکری کا خواب کبھی نا دیکھیں کیونکہ کہ آپ صرف یافتہ ہی ہیں تعلیم توآپ میں رہی ہی نہیں،یا پھر اگر آپ ان اداروں سے علم حاصل کرنے کا سوچ رہے ہیں تو میرا مخلصانہ مشورہ ہے باز آجائے،وقت بھی ضائع ہوگا اور پیسے ببھی، ورنہ آپ کا حال بھی میرے جیسا ہوگا ”دھوبی کا کتا نا گھر کا نا گھاٹ کا“بتانا میرا فرض تھا آگے آپ کی مرضی۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر۔
فقیرانہ آئے تھے ہم توصدا کرچلے سنبھال مالی باغ آپنا ہم تومسافرگھرچلے
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی۔۔۔۔ڈگری یاڈرامہ تحریر: تبسم صباء کنیز (سادہ باتیں)
