اک قیامت ڈھائے گا دنیا سے اٹھ جانا میرا
یاد کر کہ روئیں گے یارانِ میخانہ مجھے
پیر سیّد نصیر الدین نصیر ایک شاعر ،ادیب ،محقق ، جید عالم دین بلند پایہ خطیب تھے ۔آپ اردو ، فارسی اورپنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں کے صاحب طرز کے مایہ ناز کے شاعر تھے۔ اس کے علاوه عربی ، ہندی ، پوربی اور سرائیکی زبانوں میں بھی شعر کہے. اسی وجہ سے انہین “شاعر ہفت زبان” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
آپ پیر سید غلام معین الدین المعروف بڑے لالہ جی کے فرزند ارجمند اور پير مہر علی شاہ کے پڑپوتے تھے۔ آپ کی ولادت 14 نومبر 1949عیسوی میں سر زمین گولڑه شریف میں ہوئی۔ آپ گولڑہ شریف کی درگاہ کے سجادہ نشین تھے۔
پیر سید غلام معین الدین المعروف لالہ جی کی وفات کے بعد اُن کے بڑے صاحبزادے پیر سید نصیرالدین نصیر گیلانی کو سجادہ نشینی کی ذمہ داری ملی۔ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی علم کے جیّد عالم، شہرہ آفاق نعت گو شاعر، سچے عاشقِ رسولﷺ اور ممتاز روحانی پیشوا تھے جو آسمانِ رشدوہدایت پر آفتاب وماہتاب بن کر چمکے۔ اُن کی مذہبی، روحانی، ملی، علمی او ر ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پیر سید نصیرالدین نصیرؔ بظاہر ایک فرد، ایک شخصیت تھے مگر حقیقت میں ایک ادارہ، ایک انجمن اور دینی علوم کا ایک منبع ومخزن۔تھے –
دنیا میں دو باتیں ہمیشہ فخر کے قابل رہی ہیں۔ ایک نسب اور دوسرا علم۔ انہیں اعلیٰ نسب سے ہونے کا فخر بھی حاصل تھا اور اللہ نے انہیں علم کی دولت سے بھی مالا مال کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’ سجادہ نشینی صرف نسب کی بنیاد پر حاصل کرنا اس منصب کے ساتھ انصاف نہ کرنے کے مترادف ہے۔ علم وفضل اور پیغمبرانہ اخلاق کے بغیر کوئی بھی شخص اس روحانی منصب کا اہل قرار نہیں پاتا‘‘۔ حضرت پیر صاحب نے صرف نسبتوں پر اکتفا کرکے تن آسانی سے راحت وآسائش کی زندگی اختیار نہیں کی بلکہ اکتساب علم وفن کے لئے اپنے تن من دھن کو ہمہ تن مصروف کررکھا۔ ’’پدرم پیر بود‘‘ کے تخیل کو بالائے طاق رکھا۔ پیر ی مریدی کو ذریعہ معاش نہ بنایا۔ قلم کو آلۂ علم سمجھتے ہوئے اس کا خوب استعمال کیا۔
پیر سید نصیرالدین نصیر نے متعدد کتب تصنیف کی ہیں جن کے مطالعے سے دل ودماغ کے دریچے کھلتے چلے جاتے ہیں اور روح کو دائمی سرشاری نصیب ہوتی ہے۔
پیر صاحب قادر الکلام شاعر تھے اور شاعری کی جملہ اصناف سخن میں آپ کو فی البدیہہ شعر کہنے کا ملک حاصل تھا۔ حمد، نعت، منقبت، قصیدہ، مرثیہ، غزل، رباعی اور دیگر اصناف، نظم پر آپ کو دسترس تھی۔ سات زبانوں میں شاعری پر عبور حاصل تھا جس کی وجہ سے ’’شاعرِ ہفت زبان‘‘ مشہور تھے۔ زبانوں پر مہارت کا یہ عالم تھا کہ پہلی دفعہ عربی اور فارسی ادب کو ’’ماہیا‘‘ کی صنف سے روشناس کروایا۔ وہ فارسی میں غزل اور بالخصوص رباعی کے جس مقام پر فائز ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ان کا فارسی کلام فارسی کے معروف کلاسیکل اساتذہ سخن کے کلام میں ملادیا جائے تو اس کو پہچاننا اور الگ کرنا دشوار ہوگا‘‘۔
پیر سید نصیر الدین نصیر عہد حاضر کے چند نمایاں ترین نعت گو شعراء میں بے حد اونچا مقام رکھتے تھے۔ آپ کے نعتیہ کلام میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور قرآن وحدیثو اہل بیت کا علم نمایاں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے نعتیہ کلام کی عالمگیر پذیرائی کو الفاظ کی صورت میں پیش کرنا مشکل ہے۔ نعت کی طرح منقبت لکھنے میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھے۔ یوں تو شاعری میں آپ نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی مگر خاص طور پر رباعی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ رباعی ایک مشکل ترین فن ہے اور اِس فن کا اظہار مخصوص اوزان ہی میں ممکن ہوتا ہے اسی وجہ سے بڑے بڑے شعراء بھی اِس فن کے نزدیک نہیں آتے مگر پیر سید نصیرالدین نصیر اِس فن میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ علم وادب کی دنیا میں آپ کی اِس دسترس کو فراخدلی سے تسلیم کیا گیا اور آپ کو ثانی حافظ شیرازی کے لقب سے نوازا گیا۔ ایران کی کئی یونیورسٹیوں میں آپ کی فارسی رباعیات کو نصاب میں شامل کیاگیا ہے۔
پیر صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ آپ کو قدرت نے لحن داؤدی سے سرفراز فرمایا تھا۔ آپ جب مجالس میں قرآن پاک کی قرأت کرتے تو سامعین کے دلوں پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی۔ آپ خطیب بھی بہت اعلیٰ تھے۔ آپ کا خطاب انتہائی مدلل ہوا کرتا تھا۔ فنِ خطابت کے ذریعے آپ نے لوگوں کی رہنمائی کی اور دینِ اسلام کے احکامات سامعین تک پہنچاتے رہے۔ یوں آپ نے علم کی اشاعت، اسلام کی ترویج اور خانقاہی نظام کے وارثوں کو ان کی ذمہ داریاں یاد کرانے میں اپنے فنِ خطابت کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ آپ مصلحت انگیزی کے بجائے اظہارِ حق کے علمبردار تھے اور اظہارِ حق کرنے سے کبھی کوئی مصلحت آپ کو باز نہیں رکھ سکی۔ بلاشبہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے بعد گولڑہ شریف کا دوسرا بڑا نام پیر سید نصیرالدین نصیر کا ہے جو کہ اپنے بے شمار خصائل وفضائل کی وجہ سے مریدین اور عقیدت مندوں میں ’’چراغِ گولڑہ‘‘ اور نصیرِ مِلت کے القاب سے مشہور ہوئے۔
اور برصغیر کے صوفیاء عظّام میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ اور حضرت سلطان العارفین سلطان باہوؒ کے بعد یہ منفرد اعزاز بھی پیر سید نصیرالدین نصیر کے حصہ میں آیا کہ گولڑہ شریف کی سرزمین حق نصیر یا نصیر کے نعروں سے گونج رہی ہے۔
پیر نصیرالدّین اپنے جدّامجد قبلہ عالم پیر سید مہرعلی شاہؒ اور حضرت پیر سید غلام محی الدین بابو جی ؒ کی طرح عقیده ختمِ نَبوت کے تحفظ کو زندگی کا مقصد قرار دیتے تھے اور الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا پر قادیانی پروپیگنڈہ کا جواب د ینے کے لئے ختمِ نبوت ٹی وی چینل شروع کرنے والے تھے کہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اسی طرح آپ تصوف اور اسلامی تعلیمات میں درآنیوالی خود ساختہ چیزوں کے خلاف جہاد کررہے تھے اور قرآن وحدیث،صحابہ کرام، اہلبیت عظام ا ور اولیاء کرام کی خالص تعلیمات کو فروغ دینے کے لئے غوثیہ مہریہ یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے تھے۔ اِس مقصد کے لئے آپ نے اسلام آباد میں کروڑوں روپے مالیت کی ذاتی زمین بھی وقف کردی تھی اور یونیورسٹی کا تعمیراتی کام بھی شروع ہوگیا تھا مگر یونیورسٹی مکمل ہونے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔
اور آپ اپنی زندگی میں ایک ویلفیئر ٹرسٹ انجمن مہریہ نصیر یہ ویلفیئر پاکستان کے نام سے 2000 میں ٹرسٹ بنائی جو معاشرے میں مساوات، مزہبی، برداشت، معاشرتی تعلیم، فلاح و بہبود اور مثبت رویہ کے فروغ کیلئے کام کرنا تھا آخر کو اللہ کو منظور ہی تھا کہ پیر نصیر الدین نصیر 13فروری2009 بروز جمعہ کو وصال کی کھاٹیوں میں اتر گئے جو خانوادہ پیر سید مہرعل شاہ کے مہتاب درخشندہ ستارے تھے – آپ کے نماز جنازہ میں سیاسی، مذہبی، ہر مکتبہ فکر سےتعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور آپ کی وفات پر گہرے رنج غم کا اظہار کیا حضرت قبلہ پیر صاحب کے تین صاحبزادے پیر سید غلام نظام الدین جامی گیلانی , سید غلام نجم الدین گیلانی , اور سید غلام شمس الدین گیلانی شامل ہیں
پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحہ کی وفات کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے جانشین نصیرِ مِلت پیر سید غلام نظام الدین جامی گیلانی صاحب
سجادہ نشین درگاہ غوثیہ مہریہ گولڑہ شریف اسلام آبادپاکستان
آپ کی مَسند آرا پر جلوہ افروز ہوۓ
آپ کا سالانہ عُرس مُبارک ہر سال اسلامی مہینہ 17،18 صفرالمظفر کو درگاہ غوثیہ مہریہ گولڑہ شریف اسلام آباد میں انعقاد پذیر ہوتا ہے جہاں پر ملکی و غیر ملکوں سے مریدین و عقیدت مند گولڑہ شریف میں شرکت کے لئے آتے ہیں آپ پیر نصیر الدین نصیر گیلانی کی جہاں فانی سے کوچ کر نے کے بعد بھی آج آپ کے بڑے بیٹے سجادہ نشین پیر سید غلام نظام الدین جامی گیلانی آپ کے مشن کو جاری رکھیں ہوئے ہیں جس میں سرفہرست آپ کی ٹرسٹ انجمن مہریہ نصیر یہ ویلفیئر جو پاکستان اور آزاد کشمیر کے گرد نواں علاقوں میں کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے بلکہ عوامی، فلاحی کاموں اور دین کی تعمیر وترقی میں پیش پیش ہے.