• Sun. Jun 29th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

محبت حسن سے ہوتی ہے ۔ ۔(فائزہ عباس)

Jun 7, 2020

اور بنیادی طور پہ ہر حسن، خیر و خوبی کا سعچشمہ رب تعالیٰ کی زات اقدس ہے اور ہر حسن جسے ہم حسن سمجھ ریے ہوتے ہیں اپنی ہاکیزہ و خالص حالت میں وہ رب کی سمت رہنمائی ہی کا زریعہ یے مگر انسان چونکہ بصیرت، رشد اور علم سے کم ہی تعلق میں رہتا یے تو اس باعث جو حسن کشش کا باعثِ تھا، اور جس حسن کے زریعے اسے رب سے جڑنا تھا وہ اہنی سطح تک ہی محدود رہتے ہوئے اسکی حقیقی منزل کی طرف متوجہ ہونے سے بہت پہلے ہی غفلت کا شکار یو جاتا یے، یا پھر سطح ہی پہ رہتے ہوئے الجھاو میں الجھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔

اب اسکے بعد رب رسول اور اہلیبیت رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ و طاہر و کامل ہستیاں جو انسان کو اس کمال مطلق کی سمت سفر کا قرینہ، ادب، اصول و ضوابط، انداز سکھاتی ہیں وہ حسن ہیں اور حسن کی جانب رہنما ہیں ۔ ۔ ۔

اور انسان کے وجود میں تشنگی رکھی گئی ہے، جستجو رکھی گئی ہے، کمال و حسن کی جستجو، تلاش اور چاہت، مگر بندہ اسے جب انسانی شکل میں انسانوں میں محبت کے اعتبار سے دءکگتا یے تو کوئی خوبی یا بالفرض حسن کی کشش اسکی وجہ بنتی ہے پر جب قربت بنتی ہے شادی ہو جاتی ہے تب وہ جستجو زندہ نہیں رہ پاتی اور انسان کو لگتا ہے محبت لا حاصل رہ گئ پھر اگر شادی نہ ہوئ تو ویسے ہی لا ھاصل رہ گی ۔ ۔ ۔

جسطرح انسان کی زندگی میں ہر ھدایت نصیحت، وعظ خیر و خوبی اس انسان کی تعمیر کے واسطے کی جاتی ہے تاکہ اس انسان میں ایک بندہ خدا جنم لے سکے کیونکہ جب تک انسان کے وجود میں نور کے اوپر سے غفلت، جھالت، تعصب، جلن، برائیوں کے تمام پردے نہیں ہٹینگے وہ انسان اس دبے ہوئے نور کی روشنی کو ازاد نہیں کروا سکے گا اور بنا اس نور کے رب کے نور کی لزت کیفیت احساس محبت لطف کو احساس نہیں کر پائے گا ۔ ۔ ۔

سو تمام ھدایت وعظ نصیحت اسلیے ہے کہ بندہ خدا ایجاد ہو سکے انسان کی کائنات میں، تاکہ رب سے ملاقات کا عاشق بن سکے ۔ ۔ ۔

ٹھیک ایسے ہی انسان کی خلقت کا ھدف رب کی بندگی ۔ ۔ ۔ اسکا عشق لقائے رب ہے، جسکی پہلی کڑی انسانییت ہے کہ انسان بن کر خلیفہ خدا بنے، اور خلیفہ خدا بننے کے بعد انسان رب سے ملاقات کا زوق ہیدا کر سکے ہر محبت انسان کے باطن کو ان لطیف احساسات کو لمس کرنے میں مدد دیتی ہے جن کی مدد سے انسان کے وجود کی ریاست رب تعالیٰ کی لقا اس سے ملاقات کے واسطے تیار ہو سکے ۔ ۔ ۔

کیونکہ ھدف خلقت انسانی بندگی رب ہے ۔ ۔ ۔

انسان اس دنیا میں بندہ خدا کی تعمیر کے لیے ایا ہے اور یہ رشتے، ناطے، محبت، الفت، محبتیں دنیا سب کا سب اس راستے میں زندہ رہنے کے لیے مددگار ہیں ۔ ۔ ۔

اسکی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ انسان کی منزل صحرا کے دوسری طرف ہے اور اب بیچ صحرا اسکو غزا، پانی، ہمسفر، سواری، لباس خوراک چاہییے ہی ہے، اب اس سب کو انسان ضرورت کے تحت استعمال میں لاتا ہے کہ انکے بنا منزل تک نہ پہنچ پائے گا، یعنی یہ زریعہ ہے منزل تک پہنچنے کا ،
یہ سب فطری ھدف انسان کا نہیں یے جبکہ فطری سفر رب کی بندگی ہے اب ان محبتوں سے وجود کی زدخیزی اور سرزمین تیار کی جاتی ہے ۔ ۔ ۔

اب دنیا کی یر لزت کو فنا ہے، اب بھلے یہ انسان ہو یا دوسری اشیاء سو اس لیے انسان سے محبت کا عمومی جزبہ سرد پڑجاتا یے، ماند ہڑجاتا ہے، یا مر جاتا ہے، اود پھر انسان جستجو کرتا ہے کہ کسکی طرف سے ایا ہے، کہاں پہ موجود ہے، اور کسکی طرف جارہا ہے، کیونکہ یہ جستجو فطرت انسانی کا لازمی حصہ ہے ۔ ۔

اب تشنگی انسان کے وجود سے پیوست شے یے اور تشنگی کا حاصل اور تشنگی ہے. جستجو یے، اور پیاس ہے، اور حقیقی پیاس کی منزل رب تعالیٰ کی زات ہے ۔ ۔ ۔

محبت بنیادی طور پہ اپنی زات پہ ترجیح دینے کا نام ہے ۔ ۔ ۔

اور ترجیح کا مطلب دوسرے کی زات کو ہر اعتبار سے محفوظ رکھنا، اسکو ترقی کرنے، پھلنے ہھولنے کا موقع دینا جیسے ماں کی محبت ماں بچے کو جسطرح بڑھنے کا موقع دیتی ہےٹھیک ایسے ہی انسان کی انسان سے محبت ہے اور یر محبت ایک خاص حد تک انسان کی ہمسفر یے، اہنے حصے کا سکھا کر انسان کو چھوڑ دیتی ہے ۔ ۔ ۔تاکہ وہ اپنے اصل یعنی رب کی سمت سفر کر سکے ۔ ۔ ۔

جیسے ماں باپ پال پوس کے اولاد جو ایک مقام تک پہنچاتے ہیں تاکہ بچہ مطلوبہ مقام حاصلِ کر کے اہنے پیروں پہ ہر اعتبار سے کھڑا یو جائے، ٹھیکایسے ہی ہر محبت انسان کی تعمیر کرتی ہے اور اہنی اس تعمیر کے مکمل ہونے کے بعد یہ تشنگی ختم ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔

اور رب تعالی کی محبت وجود کا حصہ بنتی ہے ۔ ۔اور رب تعالی کی محبت بلندی کا ملکوتی مسلسل سفر ہے جس کو کبھی زوال نہیں اب یہ انسان کی اہلییت پہ ہے کہ خاک سے نور کے سفر میں انسان کس حد تک سبقت لیجاتا یے ۔ ۔ ۔

پر اس سمت سفر واسطے بھی انسان کی محبت ایک بنیادی پڑاو ہے پھر رشتہ کوئی بھی ہواور اس ہڑاو کی محبت ابدی یا فانی منحصر کرتی ہے چناو، منزل، کیمسٹری، اھداف اور ایکدوسرے کی زات سے کوئی کیا دیکھ کر جڑا یے ۔ ۔ ۔

جس شے کو دیکھ کر جڑا ہے وہی شے تک وہ محبت سفر کرتی یے، کبھی یہ چناو شعوری ہوتا یے، اعر کبھی لاشعوری طور سے انسان مبتخب کر لیتا ہے کہ لاشعور یا شعور میں جو شے اپکے وجود کے اندر اہمییت رکھتی ہے اپ اسی شے سے لمحہ بھر میں یا کچھ ہی وقت میں اس خاص جڑاو کا احساس کرنے لگتے ہیں کیونکہ ان دو انسانوں میں وہ شے جڑاو یے جسکو انسان کشش، لگاو، انسیت، محبت، دوستی، جیسے معنوں میں بخوبی دیکھ سکتا ہے،

اگر جسم دیکھا، رنگ روپ دیکھا، شہرت، پیسہ، رتبہ، ھدف، منزل، یا کوئی اور خوبی دیکھی تو تب تک محبت رہیگی جب تک یہ سب ہے ۔ ۔ ۔
جب یہ سب غیر اہم ہوا یا ختم ہو گیا تو محبت بھی ختم ہوجائے گی یا ماند پڑ جائے گی ۔ ۔ ۔