یوں تو پاکستان جمہوری رویوں کا کبھی متحمل رہا ہی نہیں, ابھی تقریباً بارہ سال سے اس ملک خداداد میں سیاسی حکومتیں بر سرپیکار ہیں,
پہلے پیپلز پارٹی نے پانچ سال حکومت کی اور اسکے بعد مسلم لیگ نون نے پانچ سال پورے کئے, پچھلے دو ادوار بھی جمہوری حکومت تھی اور ان حکومتوں کے دور میں اور موجودہ حکومت میں ایک واضع فرق ہے اور وہ یہ ہے.
اب کی بار ایک ایسی پارٹی کو حکومت ملی جو پہلی دفعہ اقتدار میں آئی اور وہ ہے پاکستان تحریک انصاف کی جماعت , جسکو حکومت سنبھالنے سے قبل ہی نہ اہل کہنا شروع کر دیا گیا ابھی تو حلف کی ہوا تھا اور اسمبلی میں تماشہ لگنا شروع ہوگیا……
جناب عمران خان صاحب کی حکومت کو دوسال سے کچھ زیادہ ماہ ہوئے ہونگے کہ ملک کو ایک سیاسی انارکی کا سامنہ پڑگیا جو انتہائی خطرناک ہے,
اب ذرا اسکی وجوہات پر کچھ تفصیلا بات کرتے ہیں..
پاکستان پر پچھلے پچاس سے بالواسطہ یا بلا واسطہ جن دو جماعتوں کی حکومت رہی ان میں سے پیپلز پارٹی کو تقریباً پچاس سال ہوئے اور دوسری مسلم لیگ نون ہے
ان دونوں جماعتوں کا پی ٹی آئی کی حکومت پر سب سے بڑا الزام ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہے یا ایک اور نام جو وہ لیتے ہیں کٹھ پتلی حکومت ہے.. جبکہ تاریخ گواہ ہے جناب ذوالفقار علی بھٹو بھٹو جنرل ایوب کو ڈیڈی کہتے تھے اور انکی حکومت کے وزیر خارجہ تھے جو بعد میں قائد عوام کہلاتے رہے دوسری جماعت کی کی حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیاءالحق کے مارشل کے دوران جس لولی لنگڑی جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی وہ بعد میں نون لیگ کی شکل میں پروان چڑھی,,
اس ضمن میں ایم کیو ایم کا نام بھی ہے لیکن چونکہ نون لیگ کا تعلق پنجاب کے سیاست دانوں سے اس لئے اسکو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی جو اب تک ایک بڑی سیاسی جماعت مانی جاتی ہے.
پرویز مشرف صاحب کا مارشل تقریبأ گیارہ سال تک رہا اس دوران ان دونوں بظاہر سیاسی قوتوں نے ایک چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کیا. ان کی سوچ تھی کہ مارشل لاء ہماری لڑائی جھگڑوں کی بدولت لگتا ہے ان ہوں بے عہد کیا اب اگر ہم سے کسی جماعت کو بھی موقع ملا تو اسے پانچ سال آرام سے حکومت کرنے دی جائے گی دوسرے الفاظ میں پانچ سال ہماری باری اور دوسرے پانچ سال آپکی باری لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے..
جناب پرویز مشرف کے دور میں جناب عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور پھر ایک سیٹ پر منتخب ہوکر اسمبلی میں آن بیٹھے, 2008 میں سیاسی غلطی کرکے الیکشن سے باہر رہے اور پھر 2013 میں الیکشن میں بھر پور حصہ لیا خیبر پختون خواہ کی حکومت میں بھی حکومت بنائی اور اپوزیشن میں ایک بڑی سیاسی جماعت کا اضافہ ہوگیا یعنی کہ سیاسی مخالفین کے لئے خطرے کی گھنٹی بج گئی. خیبر پختون خواہ میں اچھی پرفارمنس دی اور پھر 2018 کے الیکشن میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور حکومت بنالی سابقہ سیاسی پنڈتوں کی تو موت ہے واقعہ ہوگئی,
جس عمران خان کو وہ ایک آنکھ نہیں دیکھ سکتے تھے حکمران بنتے کیسے برداشت کرتے اور یہی وجہ ہے موجودہ سیاسی عدم استحکام کی کیونکہ ان دو سیاسی پارٹیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک ایسی جماعت اقتدار سنبھال لے گی جو انہیں کبھی قابل برداشت اور قابل قبول نہیں تھی اور نہ ہے..
اب انکی کیا پریشانیاں ہیں وہ سب جانتے ہیں ہم انکی اس سیاسی جدوجہد کو مان ہی لیتے اگر ان میں ایک بھی صاف ستھرا سیاست دان ہوتا ایک ایک کا ذکر کرکے دیکھ لیں ایک سے بڑھ کر ایک کرپٹ…
چلیں انکی ذات پر ہلکا پھلکا تبصرہ کرلیں اس وقت جو ڈیموکریٹک الائنس بنا ہے اسکے سربراہ جناب فضل الرحمان صاحب کی سابقہ ساری سیاسی زندگی ایوان اقتدار میں گزری چاہے وہ آمریت کا دور ہو یا جمہوری جدھر سے اچھا دسترخوان اور حلوہ ملا وہیں حلوہ افروز نظر آئے, نہ تو جمہوریت کو دیکھا نہ آمریت کو دستہ و بستہ حاضر رہے,
انکی کرپشن کے بھی بڑے چرچے ہیں سرکاری زمینوں تک پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں اور پاکستان کے چاروں صوبوں میں جائیدادیں بکھری پڑی ہیں نون لیگ کی حکومت میں بھی ہویا پروٹوکول لیا جاتا اور پیپلز پارٹی میں بھی,,
اب کے پہلی بار ہے جب ایوان اقتدار سے باہر ہوئے ایک تو حکمرانی کا بھوت اترا دوسرا اسمبلی اور بنگلہ نمبر 21 بھی جاتا رہا, انکی اس تکلیف کا عوام کے مسائل کچھ لینا دینا نہیں اسی طرح نون لیگ بھی ہر قسم کے اقتدار سے باہر ہے اور رہے پیپلزپارٹی والے ان کی سندھ میں حکومت ہے مگر وہ بھی بڑی مشقت میں پڑ گئے …
اب جو سب سے زیادہ پریشانی ہے وہ ہے نیب کے مقدموں کی نواز شریف پانامہ میں اڑے اور اپنی مستقبل کی امید کی واحد کرن مریم نواز کو بھی لے ڈوبے اور رہی بات فضل الرحمن صاحب کی ان کا بھی ایسا ہی حشر ہوگیا اور نیب کی مقدمات انکے کے منتظر ہیں مولانا فضل الرحمن صاحب اور نواز شریف کی اور مریم کا دکھ سانجھا ہے وہ اس وقت ایوان سے باہر ہیں انکی کوشش ہے کسی بھی طریقہ سے یہ حکومت جلد سے جلد ختم ہو اور انکا کسی طرح چانس لگ جاے لیکن ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آ رہا مگر ایک خبر کو گردش میں ہے موصوف بلوچستان کی گورنری کے خواہاں ہیں اور آج کل ایک این آر او کی خبر بھی زور شور سے چلائی جارہی ہے اب دیکھیں اس کا کیا بنتا یے..
اب انکا بیانیہ ملاحظہ فرمائیں نا اہل حکومت…
بندہ پوچھے پہلے کون سے کوالیفائیڈ حکمران تھے کیا انہوں نے حکومت کرنے کا سرٹیفیکیٹ لیا ہوا تھا ہاں شاید لیا ہوا تھا مگر لوٹ مار کا ,کرپشن کا ,اب حساب جو دینا پڑ گیا جاں ہے بنی ہوئی ہے, انکو اس بات کا پتہ ہے اگر عمران خان پانچ سال پورے کر گیا تو اگلے پانچ سال بھی ہماری دال نہیں گلے گی , رولا اسی بات کا ہے,,,
انکے اہل حکمرانوں کی اہلیت بھی ملاحظہ کریں گزشتہ دس سالوں میں اقوام متحدہ کے فورم پر کبھی کشمیر کا نام لیا اور نہ کبھی اسلاما فوبیا پر بات کی ہاں البتہ پرچی کو کافی رواج رہا باراک اوباما تو یاد ہوگا اور نواز شریف کی وہ پرچیاں بھی یہ تھی انکی اہلیت اور اب بھی آس لگائے بیٹھے ہیں عوام کو اُلو بنانے کی. …
اور موصوف فضل الرحمن جن کو کشمیر کمیٹی کا چیرمین بنایا تھا مجال ہے کبھی کشمیر پر بات کی ہو صرف 21 نمبر بنگلہ سے دلچسپی تھی اب جو وہ گیا تو پاگلوں کی طرح ہوس اقتدار کی کھوج میں ہیں,
رہی بات نیب کے مقدموں کی تو وہ بھی نوے فیصد انہی دونوں پارٹیوں کے بنائے ہوئے ہیں جو ان دونوں نے ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے بناے تھے,
اگر یہ دونوں سیاسی قوتیں چاہیتیں تو نیب کو بھی ختم کر سکتی تھیں لیکن اللہ پاک کا قانون بڑا سخت ہے اکثر اوقات جو کنواں دوسروں کے لئے کھودا جاتا ہے اس میں خود ہی گرنا پڑ جاتا ہے ,
ملک سے بھاگے ہوئے سابقہ وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کا تازہ انٹرویو جو انہوں نے بی بی سی کو دیا پاکستانیوں کو کبھی نہیں بھولے گا,
یہ تھے ان کے اہل وزیر قانون جنکی جائیدادیں لندن دبئی اور پاکستان میں بکھری پڑی ہیں ان کے بھی اعمال کی شامت آئی ہوئی تھی انہوں نے سمجھا سلیم صافی اور حامد میر جیسا ہی کوئی لفافہ صحافی ہوگا الٹی ہو گئیں سب تدبیریں جناب….
یہ وہی صاحب ہیں جو پریس کانفرنس سے صحافیوں کو دھکے دے کر نکلوایا کرتے تھے پہلی دفعہ غیر لفافہ صحافی سے پالا پڑا اور اپنا ہی پھٹ گیا .
اب پوری دنیا کورونا کی دوسر لہر کی لپیٹ میں ہے اور پاکستان بھی ایک مشکل دور میں ہے معشیت کا بیڑہ انہوں نے پہلے ہی غرق کردیا تھا اب مزید مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو پہلے مرحلے میں لاک ڈاؤن کا مطالبہ کر رہے تھے اور اب خود کورونا پھیلانا چاہتے ہیں,
یہ کیسے ملک کے خیرا خواہ ہیں انکو نہ عوام کی پرواہ پے اور ملک کی انکو ایک ہی چکھڑ چڑھا ہوا ہے کسی طرح ہماری لوٹی ہوئی دولت بچ جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ موجودہ سیٹ آپ گر جائے ہم تو دعا کرتے ہیں اللہ پاک ہمارے سیاست دانوں کو ہدایت دے…
اب اگر وہ سیاست دان ملک بچانے کی رٹ لگایں جو ملک دشمن طاقتوں کے آلہ کار ہیں تو ایک ہی سوال اٹھتا ہے کہ ملک کو اگر ان لوگوں نے درست کرنا ہے تو خراب کس نے کیا کیا عوام چور ہیں یا وہ ادارے جو ہر روز ملک کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں جواب صاف اور سادہ ہے انکو اپنے حرام مال کی فکر ہے اور کچھ نہیں..
اللہ پاک سے دعا ہے ہمارے وطن کو دشمن قوتوں سے محفوظ رکھے اور اس ٹولے کو ہدایت دے..